جوانوں کا استاد
علامہ اقبال نے جوانوں کو پیروں کا استاد کرنے کی دعا اور خواہش تو کی تھی لیکن ہمارے یہاں زیادہ پیر ہی جوانوں کے استاد رہے ہیں۔ سیاسی اصطلاح میں نوجوانوں کے لیڈر۔ ویسے تو ہمارے 72 سالہ خاں صاحب بھی خود کو جوانوں کا لیڈر کہتے ہیں، وہ جوان دکھتے ہیں، خود کو پیر مانتے بھی نہیں، مرشد ضرور کہتے ہیں۔
ہاں یہ اور بات ہے کہ جب معاملہ کورٹ کچہری میں ہو تو بزرگ شہری ہونے کا پورا پورا فائدہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ہمارے یہاں نوجوانوں کا کوئی پیر یعنی بزرگ لیڈر گزشتہ چند دہائیوں میں بن کر سامنے آیا تو وہ تھے قاضی حسین احمد۔ بزرگ دکھتے تھے بزرگ مانے جاتے ،پیرانہ سالی کے باوجود جماعت اسلامی کے متحرک اور مقبول ترین امیر سمجھے جاتے تھے۔
جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیم پاسبان کے نوجوانوں کو متحرک کرنے اور متحرک رکھنے میں قاضی صاحب کا بڑا کردار تھا۔ درجن بھر نوجوانوں کے ساتھ قاضی حسین احمد طاقتور حکومتوں کو اپنے سامنے گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کرتے رہے۔ انہی نوجوانوں کے ساتھ دھرنا سیاست کو قاضی حسین احمد نے کامیاب بناکرپیش کیا۔ وہ چند درجن نوجوانوں کے ساتھ بھی دھرنا دے بیٹھتے تو حکومتوں کے پاس کوئی آپشن نہ بچتا ان کیساتھ مذاکرت کی میز پر بیٹھنے کے سوا۔ یہ چند درجن نوجوان”ہم بیٹے کس کے قاضی کے ،دیوانے کس کے قاضی کے “ جیسے نعرے لگا کر جہاں بیٹھ جاتے بیٹھے رہتے، آنسو گیس لاٹھی چارج، شیلنگ ان کو پسپا نہ کرپاتی کیوں کہ ان کا بزرگ قائد ان کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے اس تشدد کا مقابلہ کرتا۔
گزشتہ سالوں میں نوجوانوں کی یہی طاقت عمران خان کو بھی میسر آئی لیکن انہوں نے اس طاقت کو جسطرح اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا وہ الٹی پڑ گئی۔ جماعت اسلامی کو ماحول بنانے میں بھی خاص مہارت حاصل تھی نوے کی دہائی میں ہونے والے انتخابات میں ظالمو قاضی آرہا ہے کا نعرہ اتنا مشہور کیا گیا کہ لگا واقعی قاضی ہی آرہا ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح جماعت اسلامی انتخابی سیاست میں بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ اگرچہ وہ سوشل میڈیا میمز کا دور نہیں تھا پھر بھی ظالمو قاضی آرہا ہے کے اتنے لطیفے بنے کہ آج تک لوگ یاد کرتے ہیں۔
بات ظالمو قاضی آرہا ہے جیسے نعرے کی ہورہی ہے تو آجکل کسی اور کی آمد کی بات بھی ہورہی ہے اور اس بار میاں آرہا ہے، نواز شریف کی واپسی، تاریخ کا اعلان ہوگیا، قیادت بار بار واضح کرچکی کہ واپسی پکی ہے لیکن غیر یقینی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ یا پھر یوں کہیں کہ ن لیگ ماحول نہیں بنا پارہی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نواز شریف کی وطن واپسی موجودہ سیاسی صورتحال میں ان کی جماعت کیلئے تخت یا تختہ جیسی ہے۔
نواز شریف واپس آتے ہیں تو ن لیگ کیلئے حکومت میں آنے کا خواب پورا ہوتا دکھائی دیتا ہے ورنہ ان کے پاس عوام کو بیچنے کیلئے کچھ نہیں۔ ظاہر ہے مہنگائی، بجلی کے بھاری بلوں سے پریشان حال لوگوں سے جو اس مہنگائی کا ذمہ دار بھی آپ کی سولہ ماہ کی حکومت کو سمجھتے ہیں، کس بات پر ووٹ مانگیں گے۔ نواز شریف آئیں گے تو جہاں سے ترقی کا سفر ٹوٹا تھا وہیں سے شروع ہوگا کا نعرہ اپنے اندر کچھ امید اور سہانے سپنے ضرور سموئے ہوئے ہے۔
جب سب کے سامنے 2017 کے پاکستان کے حالات رکھے جائیں گے ،ستر روپے لیٹر پٹرول، سو روپے کا ڈالر ریکارڈ شرح نمو اور زر مبادلہ کے بلند ترین ذخائر تو لوگوں کو کشش ضرور محسوس ہوگی اور امید بھی جاگے گی۔ لیکن یہ کشش صرف اسی صورت میں ہوگی جب انہیں وزیر اعظم بھی نواز شریف بنتے دکھائی دیں گے۔ یہ تو وہ بیانیہ ہے جو عوام کیلئے ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن جو بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ہے اس میں اگر مگر ضرور ہے۔ نواز شریف اپنی حکومت گرانے والے تمام کرداروں کے خلاف سخت موقف اپنانے پر بضد ہیں تو چھوٹے بھائی جان، ہاتھ ہولا رکھنے کی پالیسی چاہتے ہیں۔ معاملہ بیچ کی راہ رکھنے پر طے ہوگیا ہے۔ یعنی نہ بہت زیادہ سختی نہ زیادہ نرمی۔ رہی بات کیسز کی تو قانونی ٹیم پوری امید دلارہی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
آخری معاملہ استقبال کا ہے۔ لاکھوں کا مجمع بڑا چیلنج ہوگا۔ ورکنگ کی جارہی ہے، کمیٹیاں بن رہی ہیں لیکن ابھی تک ماحول نہیں بن پارہا۔ بڑے استقبال کیلئے ماحول بنانا ضروری ہے عوام کو لگے کہ واقعی کچھ بڑا ہونے جارہا ہے۔ ان کی توجہ حاصل کی جائے مجمے میں کم از کم دس بیس فیصد لوگ تو ایسے ہوں جو خود ہی استقبال دیکھنے پہنچیں۔ بڑا استقبال ن لیگ کیلئے الیکشن کا ماحول بنائے گا۔ ن لیگ نے “میاں جدوں آئے گا تے لگ پتا جائیگا" کا نعرہ تو دیدیا ہے لیکن اصل پتا تو تب لگے گا جب پارٹی انتخابات میں جائے گی۔
اس بار ملک میں چوالیس فیصد ووٹرز نوجوان ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اوسط شرح بھی لگ بھگ اتنی ہی رہتی ہے۔ نوجوان ووٹرز ہی زیادہ متحرک رہتے ہیں تو لگتا ایسا ہے کہ اس بار انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں میں ساتھ ستر فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ نوجوانوں کے ووٹ ہوں گے۔ تو اس بار حکومت بنانے کا دارومدار انہی نوجوان ووٹرز پر ہوگا۔ نوجوانوں کی جس سٹریٹ پاور کو ماضی میں استعمال کیا جاتا رہا وہ اب انتخابی طاقت بن چکی ہے اور اب وزارت عظمی کی کرسی تک یہی نوجوان لے جاسکتے ہیں ان کے بغیر یہ ممکن نہیں۔
٭....٭....٭