مارشل لا لگے تو سب ہتھیار پھینک دیتے، پارلیمان کچھ کرے تو حلف یاد آجاتا ہے: چیف جسٹس
اسلام آباد (وقائع نگار) سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت براہ راست نشر کی گئی۔ چیف جسٹس نے آج (منگل کو) ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت مکمل کرنے کا عندیہ دیا اور ریمارکس دیے کہ فوجی آمر ہوں یا کوئی اور، فرد واحد کا اختیار تباہی پھیلاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کے نمائندگان سے ملاقات ہوئی ہے، وکلا نمائندگان نے کہا کہ ہماری بات پوری سنی نہیں جاتی، وکلا نمائندگان نے کہا درمیان میں سوالات کے سبب وکلا بھول جاتے ہیں لہذا وکیل ایک دوسرے کو جواب نا دیں، ایسے میں کیسز جلدی نمٹائے جائیں گے۔ اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور دیگر 2ججز پر ہوتا ہے، ایک طرف چیف جسٹس کے اختیار کو کم کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب سینئر ججز کو اختیار بانٹا گیا۔ جنگ کا لفظ بہت معنی خیز ہے، کچھ کہتے ہیں کہ اختیار پارلیمنٹ کا ہے اور کچھ طبقے کہتے ہیں پارلیمنٹ کا نہیں ہے، میں نے سوچا میں خود اس کیس کو نا سنوں، سپریم کورٹ اگر ایک ہی کیس سننے کو بیٹھ گئی تو دیگر کیسز متاثر ہوں گے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بارے میں پارلیمنٹ آمنے سامنے ہے۔ اگر بینچ میں سے کوئی سوال پوچھے تو اسے نوٹ کر لیں، میں بطور چیف جسٹس اپنے اختیارات سینئر ججز کے ساتھ بانٹ رہا ہوں، یہ سوال بھی اہم ہے کہ آنے والے چیف جسٹس صاحبان اختیارات بانٹنے کو درست قرار دے رہے ہیں یا نہیں۔ پہلے سوچا خود بینچ میں نا بیٹھوں، پھر طے کیا تمام ججز اس کیس کو سنیں گے۔ کیا آپ نے ریکارڈ کے لیے سپیکر کو خط لکھا، ہم اخباری خبر پر انحصار نہیں کریں گے اور اخبارات کیا کہتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہ پوری قوم کا کیس ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تاثر نا دیں آپ پوری قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایک سابق وزیراعظم کی خواہش تھی کہ چیف جسٹس کو پارلیمان طلب کرے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فورم کو سیاسی مباحث کے لیے استعمال نہ کریں، اب پانی دریا کے پل کے اوپر سے گزر چکا ہے، حسبہ قانون کبھی ایکٹ آف پارلیمنٹ بنا ہی نہیں لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے، اب سوال یہ ہے کہ قانون درست ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے اکیسویں ترمیم کیس میں قرار دیا کہ عدالت آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے، اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون آئینی ترمیم سے بنتا تو پھر سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے سکتی تھی۔ عدالت کی آزادی خود ایک نایاب چیز ہے یا عدالت کی آزادی لوگوں کے لیے ہے، اگر عدالت کی آزادی ہوگی تو عوام کے لیے بہتری ہوگی، اگر پارلیمان قانون بناتی ہے کہ بیواﺅں کے مقدمات کو ترجیح دی جائے گی تو کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتی ہے۔ ہم یہاں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ جسٹس طارق مسعود سے مشورے کے بعد چیف جسٹس کا دلچسپ مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے ساتھی جج نے مجھے روک لیا ہے۔ اے کے بروہی صاحب کی کتاب کے حوالے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کتاب کے مطابق کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ماتحت ہے، میں تو اس دلیل کو نہیں مانتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کتاب 1958 میں چھپی، اس وقت پہلا مارشل لا لگا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اے کے بروہی صاحب کی کتاب پہلے مارشل لا سے قبل کی ہے، امریکی آئین میں بھی اختیارات کا تکون کے تصور کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، کیا پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار تھا، کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو اس طرح قانون سازی کرکے ریگولیٹ کر سکتی ہے، اصل سوال تو یہ ہے، کیا اسے عدلیہ کی آزادی کہتے ہیں اس کا جواب دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اکرام صاحب میرا سوال بھی لے لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے جج صاحب کے سوال کا جواب دینے دیں۔ آئین کے تحت کیسے قانون سازی کو خلاف قانون کہہ سکتے ہیں، آئین میں کیا لکھا ہے پارلیمان ایسی قانون سازی نہیں کرسکتی۔ ہمارے پاس اور بھی کیسز ہیں، ہم نے اس اونٹ کو کسی کنارے لگانا ہے، قانون سازی سے کون سی آئینی شق متاثر ہو رہی ہے، آج کے بعد یہ کیس نہیں چلے گا اور اگر آپ دلائل اس طرح دیں گے تو درخواست گزاروں کا وقت کم ہوگا، پھر ہم رات تک بیٹھ کر اس کیس کو سنیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا عوامی فلاح کے لیے چیف جسٹس کے لامحدود اختیار کو پارلیمنٹ ریگولیٹ نہیں کرسکتی۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون نہیں بنا سکتی، جس پر جسٹس طارق مسعود نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کو کیوں قانون سازی کا اختیار نہیں۔ ایڈووکیٹ عرفان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس قانون سازی پر اختلاف تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ججز اپنے اختیارات چیف جسٹس پاکستان کو خود سونپ سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس اختیارات دوسروں کو سونپنے کا نہیں ہے، کیا پارلیمنٹ اختیارات وفاقی حکومت کو بھی سونپ سکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پھر یہ سلسلہ کہاں جاکر تھمے گا، کل پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کو سونپ دے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون انصاف کی رسائی کا ہے، پارلیمنٹ کیوں قانون سازی نہیں کرسکتا۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔ وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں دراصل میں آئین میں ترمیم کر دی ہے، آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہوگا تو نوٹس ہو سکے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں جس میں آئین کے پہلے حصے میں لکھے بنیادی حقوق آتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کے لیے قانون سازی نہیں ہو سکتی؟ درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟ وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ میرا موکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اس ایکٹ کے تحت عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا؟ وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ چیف جسٹس اور ججز کمیٹی کو صوابدیدی اختیار مل گیا ہے کہ وہ میرے حقوق کی خلاف ورزی پر نوٹس لیں یا نہیں، کیا جب ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس تھا تو انصاف تک رسائی متاثر نہیں ہوتی تھی؟ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کے سیکشن تین کے تحت کیا کمیٹی طے کرے گی کہ ازخود نوٹس لینا ہے یا نہیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کے لیے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے، پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے ہم بہت آگے نکل چکے ہیں، ایک جانب کی دلیل ہے کہ بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں دوسری جانب کا ہے کہ نہیں ہو رہے، اگر بنیادی حق متاثر ہوتے ہیں تو یہ عوامی مفاد کا ایشو ہے، ایک فریق کہتا ہے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے اور دوسرا کہتا ہے متاثر نہیں ہوئی، ان سوالات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ درخواستیں قابل سماعت ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کیا کمیٹی کے ذریعے اختیارات ریگولیٹ کرنا انصاف کی فراہمی کو متاثر نہیں کرتا۔ ایڈوکیٹ حسن عرفان نے دلائل میں کہا کہ وزیراعظم چیف جسٹس اور ججز سب کا موقف یہی کہتا ہے کہ وہ آئین کا دفاع کریں گے، پارلیمنٹ اور ججز دونوں کے لیے آئین کے دفاع کا ذکر ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ ساتھ قانون کی پابندی کا بھی ذکر ہے، جب مارشل لا لگتے ہیں پھر سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، اس کمرے میں لگی ہوئی ججز کی تصویریں بھی ہیں، جب پارلیمنٹ کوئی قانون بناتا ہے تو سپریم کورٹ آجاتے ہیں اور جب مارشل لا لگتے ہیں تو کیوں سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کرتے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کے لیے بنیادی شرط آزاد عدلیہ بھی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر قانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہے تو فل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہوگا؟ کیا فل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟ وکیل حسن عرفان نے دلائل میں کہا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اپیل کا حق برقرار رکھنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ فل کورٹ یا لارجر بینچ کا راستہ بلاک ہوگیا۔ وکیل حسن عرفان نے بتایا کہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر تینوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے اسے مدنظر رکھیں، جب مارشل لا لگتا ہے سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں اور مارشل لا لگے تو حلف کو بھول جایا جاتا ہے، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے، مارشل لا کے خلاف بھی درخواستیں لایا کریں وہاں کیوں نہیں آتے؟ یہاں مارشل لا نہیں ہے، آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ کیا ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟ پارلیمنٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اختیار بڑھا دیا گیا، کیا آپ کا موقف یہ ہے اپیل کا حق نہ ہو بس سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے وہ حتمی ہو۔ وکیل حسن عرفان نے دلائل میں واضح کیا کہ میرا یہ موقف نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ انہوں نے ٹھیک قانون سازی کی۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کیا اہلیت نہ رکھنے کے باوجود پارلیمنٹ قانون بنائے تو اسے نیت اچھی ہونے کی بنا پر درست قرار دیا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ظفر علی شاہ کیس میں ایک فرد کو تمام اختیارات دے دیے، کیا سپریم کورٹ نے فرد واحد کو اختیارات دے کر اچھا کام کیا، ریکوڈک کو دوبارہ کھولنے کے لیے ایڈوائزری اختیارات کے تحت استعمال کیا گیا، مولوی تمیز، نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے کہا فرد واحد جو آئین سے کھلواڑ کرنا چاہے وہ کر لے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کی قدر کرنی چاہیے، ہمیں پاکستان میں آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی تاریخ کو نہیں بھولنا چاہیے، پہلے ہمارے صدر بار کہتے تھے کہ فلاں ڈاکٹرین کے دور میں کیس نہیں سنے، فرد واحد والے یا فوجی آمر ہوتے ہیں یا کوئی اور ہوتے ہیں، فرد واحد کا اختیار تباہی پھیلاتا ہے، صرف چیف جسٹس کا فائدہ نہیں بلکہ لوگوں کے فائدے کی بات کرنی چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پہلے مارشل لا کو سپریم کورٹ نے اپیل میں درست قرار نہیں دیا، سپریم کورٹ غلطی پر مستقبل میں اس کی درستگی کر سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا پارلیمنٹ چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کر سکتی ہے، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو اختیار دیتا پے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کر سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ریگولیٹ کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کا تحریری آئین ہے، ایک شخص آیا اور کہا گیا کہ ٹھیک ہے آئین کو روند دیں، جب بعد میں کوئی وضاحت آئے گی تو فیصلہ کریں گے، کبھی سپریم کورٹ نے کہا مارشل درست تھا اور کبھی کہا غلط تھا، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ہم جنگل کے بادشاہ ہیں چاہے انڈے دیں یا بچے دیں۔ وکیل حسن عرفان نے کہا کہ اصل سوال عدالت نے حل کرنا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم نے ہی کرنا ہے تو آپ بیٹھ جائیں ہم خود دیکھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔30 منٹ کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر پارلیمنٹ ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بناتی ہے جو سپریم کورٹ رولز سے مطابقت نہیں رکھتا، ایسی صورت میں قانون کی بالادستی ہوگی یا رولز کی؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ ایسی صورت میں رولز بالادست ہوں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون حاوی ہوگا یا رولز، وکیل عذیر بھنڈاری نے بتایا کہ میری نظر میں رولز کو اہمیت دی جائے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں رولز بائینڈنگ ہیں قانون نہیں، وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ رولز آئین کے تحت بنائے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا جبکہ پارلیمان نے آرڈیننس کے تحت 204 میں اپیل کا حق دیا ہے، کیا پہلے اس نکتے کی وضاحت کر دیں کہ اپیل کا وہ حق کیسے درست ہے اور یہ غلط، سپریم کورٹ نے 184/3 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا، آرٹیکل 204 میں کہاں لکھا ہے کہ اپیل کا حق حاصل ہوگا؟ وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں کہاں لکھا ہے کہ اس کا اطلاق قانون کے تحت ہوگا؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ آئین سے ہٹ کر کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مسابقتی کمیشن قانون سمیت بہت سے قوانین آئین کے اندر نہیں تو انکا کیا ہوگا، آئین میں جو چیزیں نہیں کیا قانون سازی سے ان کو شامل نہیں کیا جا سکتا؟ وکیل عزیز بھنڈاری نے بتایا کہ سپیشل ٹریبونل بنائے گئے ہوں تو ان کے خلاف اپیل دی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئین میں لکھا ہوا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں کچھ موضوعات پر قانون سازی کا حق دیا گیا ہے، آرٹیکل 191 میں قانون سازی کا اختیار کہیں نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آرٹیکل 191 میں قانون کے تابع رولز بنانے کے الفاظ غیر موثر ہو جائیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کے دلائل مان لیں تو مسابقتی کمیشن ایکٹ میں اپیل کا حق بھی غیرآئینی ہے، وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ جو قانون عدالت میں زیر بحث نہیں اس پر رائے نہیں دوں گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق ملنے سے تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہے؟ پی ٹی آئی نے اپنا موقف پارلیمان میں کیوں نہیں اٹھایا۔ وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ کسی سیاسی فیصلے کا دفاع نہیں کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سیاسی جماعت کے وکیل ہیں تو جواب بھی دینا ہوگا۔ وکیل عذیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا کہ اسمبلی سے مستعفی ہونا سیاسی فیصلہ تھا، تحریک انصاف کے ہر اقدام کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر اپیل کا حق دے دیا گیا ہے تو کیا قیامت آگئی؟ ہو سکتا ہے آپ پارلیمنٹ میں یہی خوبصورت دلائل دیتے تو آپ کی بات مان لی جاتی، میں اگر کہتا ہوں عزیر بھنڈاری ہمیشہ وقت ضائع کرتا ہے اور میں عزیر بھنڈاری کو عدالت پیش ہونے سے روک دیتا ہوں تو آپ کیا کریں گے، اگر چیف جسٹس نے ایک فیصلہ کر لیا تو مطلب اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا، پارلیمنٹ نے دیکھا ہے کہ 184/3 کا غلط استعمال ہوا تو از خود نوٹس کے غلط استعمال پر پارلیمنٹ نے اپیل کا حق دیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے تمام فیصلے درست نہیں ہوسکتے، اگر ہر کیس میں اپیل کا حق دے دیا جائے تو ہر بندہ اپیل لیکر آجائے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک مثال دے دیں کہ دنیا کی کسی عدالت میں سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہے؟ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ باہر دنیا میں جانے کی کیا ضرورت ہے اپنے ملک کی مثال دیکھ لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ امریکا اور ہماری عدالت میں ایک بنیادی فرق ہے کہ وہاں فل کورٹ بیٹھتی ہے، امریکا میں تو غلامی تھی خواتین کو ووٹ کا حق برصغیر کے بعد ملا، ہم امریکا سے زیادہ متاثر کیوں ہیں، امریکا میں دو تین ججز کے بجائے فل کورٹ کیس سنتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ امریکا کی عدالت میں ازخود نوٹس کا بھی تصور نہیں، وکیل علی عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ امریکا میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ خود 184 تین میں اپیل کا حق دے دے تو کیا ہوگا؟ وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پھر بھی اپیل ممکن نہیں ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اس سے اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے، پارلیمنٹ اپیل کا حق دینے میں بااختیار ہے لیکن دینے کا طریقہ کار کیا ہو یہ مسئلہ ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اپیل کا حق اتنا ہی ضروری ہے تو تین رکنی کمیٹی کیسے اپیل کے لیے فیصلہ کرے گی؟ فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کیسے ہوگی؟ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ ابھی تو اپیل کا حق ہے ہی نہیں، اپیل کتنے ججز سنیں گے کیا نمبر ہوگا یہ بعد کی بات ہوگی، یہ سوال کہ فل کورٹ بیٹھ کر کیس سن رہی ہے اس کی اپیل کون سنے گا، اس کا سادہ سا جواب ہے کہ فل کورٹ اگر بیٹھ کر غلط فیصلہ کرے تو بات ختم، فل کورٹ کے بیٹھنے سے بات ختم ہو جاتی ہے۔ اگر قانون کالعدم ہوگیا تو اپیل کا حق ہی ختم ہوجائے گا، اگر 17 ججز نے بھی بیٹھ کر غلطیاں کرنی ہیں تو اپیل کا حق ہونا ہی نہیں چاہیے، اپیل کا حق مختلف ہے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنا اور بات ہے، پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت کے طور پر ایکٹ سے فائدہ ہو رہا ہے یا نقصان؟ وکیل علی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمیں کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہے، مجھے ہدایات ہیں کہ میرا موکل شاید دوبارہ اقتدار میں آئے تو اس قانون سازی سے فرق پڑے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کے مقدمات میں ہدایات لینے کی اجازت نہیں آپ عدالت کی معاونت کے لیے ہیں۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اسی کمرے میں ججز پر جسمانی حملے بھی ہوئے، آئین نے سپریم کورٹ کے تحفظ کے لیے آگ کی دیوار بنائی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی اداروں کو اپنے رولز بنانے کا حق حاصل ہے، عدلیہ پارلیمنٹ سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام ججز مجھے فل کورٹ اجلاس بلانے کا کہیں اور میں نہ بلاوں تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا، پارلیمنٹ نے کہا کہ چیف جسٹس کو اچھا لگے یا نہیں لیکن یہ ایکٹ بنانا ہے، چیف جسٹس خود سے کبھی یہ قانون نہ بناتے، چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنا مقصود تھا، چیف جسٹس کے غیر مناسب کنڈکٹ کے بارے میں کون کچھ کہہ سکتا ہے، جمہوریت اور اسلام میں ایک شخص کو تمام اختیارات دینے کی اجازت نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اگر 17 ججز بھی یہی غلطیاں کرنی ہے تو پھر اپیل کا حق ہونا ہی چاہیے، بطور سیاسی جماعت آپ کو گھبراہٹ کیوں ہے، اپیل کا حق ملنے سے ہو سکتا ہے آپ کو فائدہ ہو۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ اسی عدالت پر حملہ بھی ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے ایسی باتیں نہ کریں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر بھی حملے ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو بھی تحفظ دینا جانتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے بطورِ چیف جسٹس کہا جائے کہ رولز بنانے کے لیے فل کوٹ میٹنگ بلا لیں میں انکار کر دوں تو کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا، تعجب ہے کہ کسی نے اسلام پر بات نہیں کی، چیف جسٹس نا قابل احتساب کیسے ہو سکتا ہے، اگر میرا کنڈیکٹ بہت زیادہ نا قابلِ قبول ہو جائے تو کیا ہوگا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی مستقل نہیں ہوتی بلکہ مدت ملازمت کی ریٹائرمنٹ بھی ہے، اگر کسی کا کنڈیکٹ نا قابلِ قبول ہے تو وہ چلا جائے گا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اگر نا قابل قبول کنڈیکٹ ہو تو اس کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بھی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میری ریٹائرمنٹ کا انتظار کریں، آپ نے مختلف عدالتی سوالات کا تحمل مزاجی سے جواب دیا۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ لاہور کے لیے نکلنا ہے اور اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ مجھے بہت خوشی ہے آپ کے جواب کا ایک ایک لفظ پڑھوں گا۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل کو آئین کا پہلا صفحہ پڑھنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں کبھی امریکا لے جاتے ہیں کبھی کہیں آئین پڑھیں، آئین میں لکھا ہے حاکمیت اللہ پاک کی ہے، قرآن پاک میں بھی مشاورت سے کام کرنے کے احکامات ہیں اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی مشاورت سے فیصلے کا کہتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اتنا ہی برا قانون ہے تو کل جب آپ پارلیمنٹ جائیں تو قانون ختم کرنے کے لیے بل لائیں گے۔ وکیل پی پی آئی نے کہا کہ ہو سکتا ہے آئینی تحفظ دے دیں، ہر مارشل لا بھی ایسی بنیاد پر لگا کہ پارلیمنٹ کام نہیں کر رہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ قانون سازی کو درست مانتے ہیں، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ میں ایسا نہیں کہہ رہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ یہ مان رہے ہیں فرد واحد کو اختیار نہیں ملنا چاہیے۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ میں دونوں انتہا¶ں کے خلاف ہو، کوئی بیرونی ایجنسی سپریم کورٹ کو ریگولیٹ نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کے لیے ایسے لفظ استعمال نا کریں، آپ کتنے آرام سے کہہ دیتے ہیں آئین معطل ہو گیا، ہمیں ایسے مائنڈ سیٹ کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، کیا ہم قرآن سے مدد لے سکتے ہیں فیصلہ کرتے وقت، مشاورت سے کام کرنے کا حکم احکامات الہی سے ہے اور ہم نے مشاورت سے بہت خوبصورتی سے کام کیا۔ کوئی یہ نا سمجھے کہ اختلاف بھی تھا، ہمارے نبی ہر کام میں مشاورت کرتے تھے، پارلیمنٹ نے بھی یہی کہا ہے کہ مشاورت کریں، اختیار پارلیمنٹ کو نہیں خود سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے وکلا سے سوال کیا کہ آج کیس کی سماعت کو ملتوی کر کے کسی اور دن رکھ لیتے ہیں، کیس کو کس دن سماعت کے لیے مقرر کیا جائے، اٹارنی جنرل بتائیں کس دن سماعت کے لیے مقرر کریں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ پیر کو کیس سماعت کے لیے مقرر کر لیں، جس پر چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیر کو پورا دن ایک ہی کیس سنیں گے، مسلم لیگ ن، ق لیگ، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف کے وکلا کو بھی پیر کے دن سنیں گے، اگر کوئی فریق تحریری جواب جمع کروانا چاہے تو کرا سکتا ہے، کوشش کریں تمام فریقین کے وکلا اپنے دلائل کو محدود رکھیں، پیر کے دن رات بارہ بجے تک بھی بیٹھنا پڑا تو کیس پر سماعت مکمل کریں گے۔