سردارمحمدچودھری کی کتاب ”جہانِ حیرت“اور وفاقی سیکرٹری اطلاعات
لطیف اور کریم جذبوں کے شاعر گیلانی کامران کا ایک شعر ہے۔
اے ستمبر کے مہرباں موسم
میں ہوں صدقے تیرے ہواوں کے
لیکن کچھ لوگ ستمبر کو ماہ ستم گر کہتے ہیں ، ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح اور سید مودود ی بھی اسی مہینے میں جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ ستمبر نے جاتے جاتے ایک اور راوین ڈاکٹرپرویز طاہر کو ہم سے جدا کردیا۔جنگ ستمبر اسی ماہ میں چھڑی اور ختم ہوئی۔میری والدہ ماجدہ کا انتقال بھی اسی ماہ میں ہوا۔
پنجاب کے سابق آئی جی پولیس سردار محمد چودھری بھی اسی ماہ داغ مفارقت دے گئے۔ایک عرصے سے میرا پختہ ارادہ تھا کہ میں سردارچودھری کی یاد میں ایک کالم لکھوں گا۔ میرے ارادے کو مہمیز مظہربرلاس کی ایک تحریر نے دی،جس میں انہوں نے خبر دی کہ نئے وفاقی سیکرٹری اطلاعات ظہور احمد چودھری راوین بھی تھے اورگورنمنٹ کالج کے مجلہ راوی کے ایڈیٹر بھی رہے اوروہ مرحوم سردارمحمد چودھری کے بھانجے بھی ہیں۔
مظہر برلاس نے مجلہ ”راوی“کے ایڈیٹروں کا تذکرہ کیا، ہمارے دوست وحید رضا بھٹی نے اپنے دور میں اس روایت کا آغاز کیا تھا کہ مجلہ راوی کے سرورق کے اندرونی صفحے پر تمام سابق ایڈیٹروں کے نام لکھے جانے لگے۔
میں نے اپنے دوست وحید رضا بھٹی سے فون پر پوچھا کہ ظہورچودھری کس زمانے میں راوی کے ایڈیٹر بنے۔انہوں نے گورنمنٹ کالج کی ہسٹری میں سے چیک کرکے بتایا کہ ظہور چودھری 1987-88-89ءمیں مجلہ راوی کی مجلس ادارت میں شامل تھے۔ اسی زمانے میں ان کی ایک غزل ”پطرس “نامی میگزین میں شائع ہوئی۔ جس پر ظفر اقبال نے ایک کالم تحریر کیا اور اس غزل کی بے حد تعریف وتحسین کی۔ جناب مظہر برلاس نے اپنے کالم میں مجلہ راوی کے بہت سے ایڈیٹروں کے نام لکھے ، جن میں میرا نام بھی شامل تھا۔ مگر میری رائے میں راوی کو جس ایڈیٹر پر فخر ہونے کا حق حاصل ہے، وہ محمود شام ہیں۔
ظہور چودھری کے حوالے سے بات چل نکلی ہے ،تو یہ بات الطاف گوہر سے شروع ہوکرسید انور محمود تک پہنچتی ہے۔ محکمہ اطلاعات کی راہداریوں میں سید انور محمود کی خوشبو آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ شرافت ، نجابت اور سادگی کے پیکرسید انور محمود کی شان بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ ناکافی ہیں۔ان کے شاگردِ رشید ، محترم چودھری رشید احمد نے سید انورمحمود کی روایات کو آگے بڑھایا اور سیکرٹری کے منصب کو ایک ادارے میں تبدیل کردیا۔
اطلاعات کے محکمے کو ایک سے ایک بڑھ کر سیکرٹری ملا ، تیمور عظمت عثمان، اکرم شہیدی، اشفاق گوندل، احمد نواز سکھیرا، شفقت جلیل ، محترمہ شہیرہ شاہداور سہیل علی خان ،کس کس کا ذکر کیا جائے، یہ اوران جیسے کئی ناموں نے محکمہ اطلاعات کو تابندگی و عروج بخشا۔
احمد نواز سکھیرا تو مجھے ہمیشہ تادیر یاد رہیں گے ،کیونکہ وہ سردار اسلم سکھیرا کے صاحبزادے ہیں۔ سردار صاحب روزنامہ نوائے وقت کے مستقل کالم نویسوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ ادب و صحافت کے حوالے سے ان کی نصف درجن کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔ ظہور احمد چودھری عالی نسب ہیں ، ان کا تعلق سردار محمد چودھری کے خاندان سے ہے۔ بلاشبہ سردار محمد چودھری درویش منش مگر دبنگ پولیس افسر تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں وہ حکومت کے عتاب کا شکار ہوئے ، انہیں پی ٹی وی کے قومی خبرنامے کے ذریعے نوکری سے معطل کیا گیا۔
بہت سے سرکاری ملازمین نے اپنے کیرئیر اور دورکے بارے میں کتابیں تحریر کرنے کا مشغلہ اپنایا، اس صف میں قدرت اللہ شہاب پہلے نمبر پر دکھائی دیتے ہیں۔ مختار مسعود،مسعود مفتی، صدیق سالک ،کرنل محمد خاں، شفیق الرحمن،سید ضمیر جعفری کی کتابوں نے اپنے اپنے دور میں دھوم مچادی۔ مگر سردار محمد چودھری کی کوئی نصف درجن کتب میں سے ایک کتاب ”جہان ِ حیرت “ ناقابل ِ یقین انکشافات کا ایک نایاب ذخیرہ ہے۔ جس میں جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت کو ایک آئینہ دکھایا گیا ہے۔ جنرل یحییٰ نے اچھے، برے سبھی کام کئے۔ مگر ان کے دورکا ایک قابل ِذکر کارنامہ امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر کا خفیہ دورہِ چین ہے۔ یحییٰ خان اس کے سہولت کار بنے۔ چودھری سردار محمد کی ڈیوٹی اس آپریشن کو خفیہ رکھنے کے لئے لگائی گئی۔ اس محیر العقول سفارت کاری کا تفصیلی ذکر ”جہان ِ حیرت“میں کیا گیا ہے۔
”جہان حیرت “میں بیان کیا گیا ایک اور واقعہ سردار چودھری کی ذہانت اور حاضر جوابی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ سردار چودھری کی ڈیوٹی تھی کہ وہ یحییٰ خان کو انکوائری کے لئے لے جایا کرے۔ عام طور پر وہ ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے تھے، ایک روز سردار چودھری انہیں بذریعہ جیپ لے گئے۔ راستے میں ریلوے پھاٹک بند تھا۔ جہاں لوگوں کے ایک ہجوم نے جنرل یحییٰ خان کو جیپ میں دیکھ کر پہچان لیا اور ان پر پتھروں کی بارش کردی۔ جس پر یحییٰ خان نے چلانا شروع کردیا کہ جیپ کو یہاں سے جلدی نکالو، سردار چودھری نے کہا کہ یہ لوگ تو آپ کے فین ہیں اور آپ کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوں یحییٰ خان کی خوب پٹائی ہوئی۔
”جہانِ حیرت “ کی ایک ایک سطر قاری کو حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈبودیتی ہے۔ عام انتخابات کے دوران سرکاری اداروں کی مداخلت کی گواہی بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ ’جہانِ حیرت ‘ پچھلے کوئی بیس برس سے مسلسل شائع ہورہی ہے۔
یہ اتفاق کی بات ہے کہ میں نے سردار چودھری کے آخری دنوں میں ہر شام ان کے گھر پر حاضری دی۔ ایک رات میں ان سے ملنے گیا تو وہ اپنے بیڈروم میں لیٹے ہوئے تھے۔ انتہائی مضمحل دکھائی دے رہے تھے۔ اس دوران ان کی بیٹی صائمہ کچھ نرم غذا کھانے کے لئے لائیں، سردار چودھری نے پہلے تو نفی میں سرہلایا ، کہ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا۔
میں نے کہا کہ بیٹی کا دل رکھنے کے لئے کچھ چکھ لیں۔ یہ نصف شب کا عالم تھا۔ میں اپنے گھر چلاآیا اور محترمہ صائمہ نے اپنے گھر کا رخ کیا۔ رہے نام اللہ کا، صبح فون کی پہلی گھنٹی بجی کہ ہمارا دانشور دوست اب ہمارے درمیان میں نہیں رہا اور اس جہان سے کوچ کرگیا ہے۔
آج اسی خاندان کا ایک اور چشم و چراغ ظہور احمد چودھری محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ منصب پر فائز ہیں۔ بے شک ،آج ایک پ±رآشوب دور ہے۔ دعاہے کہ ظہور چودھری اپنے فرض منصبی کو کامیابی سے نبھائیں۔