• news

مہنگائی کے ذریعے عوام کو خانہ جنگی پر نہ اکسایا جائے

جب سے وفاق میں نگران حکومت وجود میں آئی ہے مہنگائی کا طوفان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ نگران حکومت سے پہلے پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی کی سولہ ماہ کی حکومت نے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا اسے ظلم و ستم کے سوا اور کچھ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اپریل 2022ءمیں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو جن الزامات کی بنیاد پر گھر بھیجا گیا تھا بعد میں اتحادیوں کی حکومت نے وہی کام خود کرنا شروع کردیا تھا بلکہ اس سلسلے میں وہ پی ٹی آئی سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ گئے۔ اگست 2018ءمیں جب پی ٹی آئی کی حکومت میں وجود میں آئی تھی تب بھی بہت سے دعوے اور وعدے کیے گئے تھے لیکن تقریباً پونے چار سالہ دورِ حکومت میں مہنگائی کے ریکارڈ قائم کر کے عوام کی چیخیں نکلوائی گئیں اور جاتے ہوئے بھی ایسے اقدامات کیے گئے جن سے ملک اور عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ بات پی ٹی آئی کے رہنما خود تسلیم کرچکے ہیں بلکہ وہ فخر سے بتاتے تھے کہ ہم نے اپنے بعد آنے والی حکومت کے لیے معاشی حوالے سے بارودی سرنگیں بچھائیں۔ انھی سرنگوں کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک اور عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
مسائل کی اس آگ پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں تیل کا کام کرتی ہیں کیونکہ دیگر تمام اشیاءکے نرخ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ عوام کی پریشانیاں بڑھانے کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اب پھر سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی3.28روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔نیپرا نے یہ فیصلہ وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد کیا ہے۔اس سلسلے میں نیپرا کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق، بجلی صارفین کو 6 ماہ میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی اور صارفین یہ ادائیگیاں اکتوبر 2023ءسے مارچ 2024ءتک کریں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا اطلاق کراچی الیکٹرک صارفین پر بھی ہو گا۔
رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے پر نگران حکومت نے گیس مہنگی کرنے کی بھی تیاری مکمل کرلی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف نے گیس کے ریٹ45 فیصد بڑھانے اور گیس ریٹ بڑھا کر 435 ارب روپے جمع کرنے کا مطالبہ کررکھا ہے اور آئی ایم ایف اس سلسلے میں کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں۔ اطلاعات کے مطابق، گیس کے چھوٹے صارفین کو ریٹ میں اضافے سے بچانے کے لیے حکمت عملی تیار کرلی ہے اور 64 فیصد صارفین کو اس اضافے سے بچانے کے لیے حکمت عملی بنالی گئی ہے۔ اتحادیوں کی سابقہ حکومت گیس مہنگی کرنے کا یہ فیصلہ مو¿خر کرگئی تھی لیکن اب جلد ہی گیس کی قیمت بڑھانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔ گیس کے ریٹ میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا اور صارفین اکتوبر تا دسمبر کے بلوں میں جولائی تا ستمبر کے واجبات کلیئر کریں گے۔
نگران حکومت نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ ہم 64 فیصد صارفین کو گیس کے نرخوں میں اضافے سے بچانے کے لیے حکمت عملی تیار کرچکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب گیس کی قیمتوں میں اس اضافے کا اطلاق کمرشل صارفین، تندور اور ہوٹلوں ، صنعتی صارفین اور سی این جی سمیت کھاد کارخانوں، اسٹیل انڈسٹری پر ہوگا تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عام آدمی اس اضافے سے متاثر نہ ہو۔ ظاہر ہے جب مذکورہ صارفین مہنگی گیس خریدیں گے تو جو اشیاءوہ بیچتے ہیں ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا اور یوں براہِ راست نہ سہی تو بالواسطہ عوام کو گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اس اضافے کا بوجھ اٹھانا ہی ہوگا۔
ملک بھر میں اشیاءکی قیمتوں پر نظر رکھنے والے حکومت کے محکمے وفاقی ادارہ¿ شماریات کی تازہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ستمبر 2023ءمیں مہنگائی میں 2 فیصد اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق، ستمبر میں مہنگائی کی مجموعی شرح اس اضافے کے بعد 31 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے جو جولائی سے ستمبر کے دوران 29 فیصد تھی۔ ستمبر میں شہری علاقوں میں مہنگائی میں 1 اعشاریہ 67 فیصد اضافہ ہوا۔ ادارہ شماریات کے مطابق ، ستمبر میں موٹر فیول 11 اعشاریہ 30 اور مائع ایندھن 9 اعشاریہ 2 فیصد مہنگا ہوا، یوں ٹرانسپورٹ چارجز 4 اعشاریہ 2 فیصد بڑھ گئے۔ اس رپورٹ میں سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ستمبر 2022ءکے مقابلے میں بجلی چارجز 163 اعشاریہ 7 فیصد بڑھ گئے۔ رپورٹ کے مطابق، ایک سال میں ٹرانسپورٹ چارجز 55 اعشاریہ 6 فیصد، سٹیشنری 42 اعشاریہ 7، گھریلو سامان 38 اعشاریہ 2 فیصد، موٹر فیول 33 اعشاریہ 4، گاڑیوں کے آلات 32 اعشاریہ9 فیصد مہنگے ہوئے۔
عوام کے لیے مزید بری خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن رواں ماہ کے آخری ہفتے پاکستان آرہا ہے۔یہ جائزہ مشن رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی اقتصادی کارکردگی کا جائزہ لے گا، اور اس مشن اور حکومت کے مابین مذاکرات میں ٹیکس اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں اصلاحات پر بھی بات چیت ہوگی۔ اقتصادی جائزے کی کامیابی سے تکمیل کے بعد آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کی صورت میں پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر کی اگلی قسط جاری ہوگی۔ بتایا جارہا ہے کہ ان مذاکرات میں اخراجات میں کمی کے پلان پر بھی بات چیت ہوگی۔
نگران حکومت کا عوام سے کوئی تعلق نہیں اس لیے وہ کسی بھی قسم کے احتساب سے بے پروا ہو کر ایسے فیصلے کررہی ہے جن سے عوام بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مہنگائی کے طوفان کے ذریعے عوام کو خانہ جنگی پر اکسایا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کا نام لے کر عوام کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے اور سرکاری خزانے سے مراعات و سہولیات لینے والے طبقے کے مفادات پر ذرا سی بھی آنچ نہیں آنے دی جارہی۔ یہ صورتحال ملک کے ناقابلِ تلافی نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ جلد از جلد عام انتخابات کروا کر معاملات عوامی مینڈیٹ سے وجود میں آنے والی حکومت کے سپرد کیے جائیں تاکہ عوام کو بھی پتا ہو کہ انھوں نے کس کا گریبان پکڑ کر مہنگائی کے بارے میں سوال کرنا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن