• news

پاکستان میں زلزلے کی پیشنگوئی سے خوف و ہراس

 ایک روز قبل ایک موسمیاتی و ارضیاتی عالمی ادارے کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں واقعہ چمن فالٹ لائن میں شدید زلزلہ کا خدشہ ہے۔ یہ علاقہ افغانستان بارڈر پر واقع ہے۔ یہاں پہلے بھی متعدد بار زلزلہ آ یا ہے۔ 2013ءمیں بھی شدید زلزلہ آیا تھا۔ ایسی پشینگوئیاں ہوتی رہتی ہیں ضروری نہیں کہ انہیں سو فیصد درست تسلیم کر لیا جائے۔ مگر خوف و ہراس اس وجہ سے زیادہ پھیلا ہے کہ اسی ادارے نے کچھ عرصہ قبل ترکی میں آنے والے ہولناک زلزلہ کی بھی پیشنگوئی کی تھی جو درست ثابت ہوئی اور وہاں جو تباہی مچی وہ سب کے سامنے ہے۔ اس لیے لوگ کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں۔ خدا کرے یہ خدشہ درست ثابت نہ ہو۔ زلزلہ ہو یا سیلاب ہمارے ہاں جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے اس کا نقصان صرف اور صرف عوام کو ہوتا ہے۔ خواص کے لیے تو یہ تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ امیر مینائی نے بھی زلزلہ کے حوالے سے کیا خوب کہا تھا
 زلزلے یونہی زمینوں پہ نہیں آتے 
کوئی بےتاب تہ خاک تڑپتا ہو گا 
قدیم عقائد کے مطابق جب زمین کو اپنے سینگ پر اٹھانے والی گائے تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اس ہلچل سے زلزلہ آتا ہے۔ اب گائے کب تھکے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ جدید سائنسدان زیر زمین مختلف تبدیلیوں کی وجہ سے کہتے ہیں کہ زلزلہ آتا ہے۔
 ہمارا دین بتاتا ہے کہ جب زمین پر فساد اور گناہ بڑھ جائے تو وہاں زلزلے کی شکل میں انسانوں کو غفلت سے جگانے کے لیے تازیانہ عبرت نازل ہوتا ہے۔ بہرحال اس وقت جو خوف ہراس پھیلا ہوا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے ماحول کے مطابق بود و باش اختیار کریں بلوچستان کے فالٹ لائن والے علاقوں جن میں کوئٹہ بھی شامل ہے پر بھاری بھرکم کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے پرہیز کریں ورنہ تباہی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ ماحولیاتی اراضیاتی عوامل کو مدنظر رکھ کر ہی ہم زلزلوں کے شدید نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
اڈیالہ جیل میں شوہر کو زہر دیا جا سکتا ہے۔ بشریٰ بی بی اور وکلا کے خدشات 
پہلے خدا خدا کر کے انہیں اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے لیے پوری پارٹی نے اور بشریٰ بیگم نے زمین و آسمان ایک کر دیا تھا وہاں بھی انہیں خدشہ تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو خطرہ ہے۔ انہیں زہر دیا جا سکتا ہے۔ جہاں انہیں ان کی خواہش پر دیسی گھی میں دیسی مرغ و مٹن بنا کر دیا جاتا تھا جو گھر سے بھی زیادہ مقوی و لذیذ ہوتا تھا۔ 
اب یہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، انہیں اڈیالہ میں جان کا خطرہ ہے، زہر دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ وہ کوئی عام قیدی نہیں۔ انہیں باقاعدہ چیک کر کے ڈاکٹروں کی اجازت کے بعد خوراک دی جاتی ہے کیونکہ کوئی بھی حکومت یا جیل کا عملہ اتنی خوفناک اور خطرناک حرکت نہیں کر سکتا جس کا انجام نہایت برا ہو سکتا ہے۔ مگر بشریٰ بیگم اور ان کے وکلا کھوسہ اور پنجوتھا صاحب جس طرح گن گن کر وجوہات بتا رہے ہیں وہ س±ن کر تو پی ٹی آئی والے واقعی پریشان ہوں گے۔ خاص طور پر وکلا تو ان کے جیل کی صورتحال، کمرے کی واش روم کے علاوہ چہل قدمی کی جگہ ، بستر و پنکھے کی اور ان کی صحت کی منظر کشی کرتے ہیں اس پر تو قدیم دور کے کسی زنداں کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ مگر خود چیئرمین سے ملنے والے بتاتے ہیں سوشل میڈیا ایسے بیانات سے بھرا ہوا ہے کہ وہ مطمئن ہیں۔ صحت بھی اچھی ہے سہولتیں بھی عدالتی احکامات کے مطابق مل رہی ہیں تو پھر ماتم و گریہ کیسا۔
 اب تو جیل کے عملہ نے احتیاطاً ان کی سکیورٹی مزید سخت کر دی ہے۔ ان کو خصوصی سیل میں رکھا جا رہا ہے۔ جہاں چڑیا تو دور کی بات مکھی اور مچھر بھی پَر نہیں مار سکتے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے متحرک بلاگرز نے تو ہاتھ میں تسبیح یا جائے نماز پر بیٹھے مرشد کی باریش ایسی ایسی تصاویر جاری کی ہیں جنہیں دیکھ کر کبھی مست ملنگ کبھی باہوش صوفی یاد آتا ہے۔ 
اب خدا کرے مرشد عدالت میں پیش ہوں تو پتہ چلے گا کہ وہ باریش ہیں یا داڑھی مونچھ منڈاہے ہیں۔ بالوں میں خضاب لگا ہے یا نہیں۔ شیو کی سہولت اور استری والے کپڑے تو انہیں جیل میں دستیاب ہی ہوں گے۔ آخر شاہ محمود قریشی بھی تو بہترین شیو اور استری والے کلف لگے کپڑے پہن کر عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں۔وہ بھی تو نائب چیرمین ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
آزاد کشمیر میں ایف سی ، ملیشا رینجرز اور پنجاب و خیبر پی کے سے پولیس کی نفری طلب 
یہ سارا انتظام صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ وہاں کے لوگ بھاری بجلی بلوں کے حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ بھاری بجلی بلز نے جس طرح متوسط اور غریب صارفین کی کمر توڑ دی ہے۔ اس سے عوام کا پارہ ہائی ہو چکا ہے اور وہ سراپا احتجاج ہیں۔ پورے آزاد کشمیر میں صارفین بجلی کے بھاری بل جمع نہیں کرا رہے۔ ان کا مطالبہ وہی ہے جو پاکستان کے کروڑوں بجلی صارفین کا ہے کہ ان بلز سے ناروا ٹیکس ختم کئے جائیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابھی تک پاکستانی صارفین اس طرح منظم ہو کر سڑکوں پر نہیں نکلے ہیں۔
 اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو پھر حکومت کیا کرے گی کیا پورے ملک میں رینجرز، ایف سی، ملیشا و دیگر اداروں کو سڑکوں پر لانے کے احکامات جاری کرے گی۔ آزاد کشمیر ایک حساس اور متنازعہ خطہ ہے۔ وہاں زور زبردستی سے بھارت کو موقعہ مل سکتا ہے کہ وہ ایسے حالات پر عالمی برادری کو گمراہ کرے اور اس متنازعہ علاقے میں کوئی شرانگیز کارروائی کرے۔ دعا تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو۔ اس وقت پوری قوم بجلی بلوں کے ہاتھوں پریشان ہے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ 
حکومت جتنا خرچہ آزاد کشمیر میں احتجاج کو دبانے پر خرچ کر رہی ہے اس سے زیادہ وہ بجلی بلوں سے ٹیکس ہٹا کر کما سکتی ہے۔ ہر جگہ ڈنڈے کا استعمال ضروری نہیں ہوتا۔ اس وقت جماعت اسلامی بجلی بلوں کیخلاف میدان میں ڈٹی ہوئی ہے اگر وہ آزاد کشمیر میں بھی ڈٹ گئی تو اس کے ممکنہ اثرات پاکستان میں بھی نظر آ سکتے ہیں۔ صنعتی، تجارتی، کاروباری تنظیمیں اس کے ساتھ مل کر جو تماشہ سڑکوں پر لگائے گی اس کے تصور سے ہی کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی لوگ مہنگائی کے ہاتھوں نکونک ہو چکے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حکومت کو ٹشو پیپر کی طرح ناک صاف کر کے کوڑے دان میں پھینک دے۔ آزاد کشمیر میں بجلی بلوں سے لگنے والی آگ کو پورے ملک میں پھیلنے سے پہلے ٹھنڈا کرنا ہو گا۔ اس کے لیے مار نہیں پیار کا فارمولہ ہی کارآمد ہو سکتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن