• news

برداشت ‘ رواداری: قرآن و سیرت کی روشنی میں

علامہ اقبال مفسر قرآن اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے- انہوں نے کہا تھا کہ جب جب مسلمان زوال پزیر ہوئے انہیں قرآن اور سیرت نے زوال سے باہر نکالا - آج بدقسمتی سے پاکستان زوال پزیر ہے- یہ زوال سماجی اخلاقی سیاسی معاشی انتظامی اور عدالتی ہے- اس زوال کا سبب یہ ہے کہ ہم قرآن اور سیرت کے بنیادی سماجی اور اخلاقی اصولوں کو فراموش کر چکے ہیں- جڑانوالہ کا المناک واقعہ ہمارے زوال کا منہ بولتا ثبوت ہے- یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جن افراد نے عیسائیوں کے چرچوں اور گھروں کو نذر آتش کیا ان کو قرآن اور سیرت کی بنیادی تعلیمات کا علم نہیں ہوگا - برداشت اور رواداری اسلام کے بنیادی اصول ہیں جن کا شاندار اور یادگار عملی مظاہرہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر کیا- برداشت اور رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ دوسروں کے مذہبی عقائد جذبات اور رسم و رواج کا لحاظ کیا جائے- قرآن کے مطابق دین میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ہے- ہر انسان کو اپنا عقیدہ رکھنے کا حق حاصل ہے- قرآن کے مطابق کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ کے تمام مذاہب اور انبیاءپر ایمان نہ رکھتا ہو-

 سورہ النساءکی آیت نمبر 150 میں ارشاد ربانی ہے- " بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ کے رسولوں کے درمیان فرق کریں وہ کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں اس کے درمیان کوئی راہ اختیار کریں۔ وہی لوگ پکے کافر ہیں-" اللہ نے قرآن میں غصہ کرنے سے منع فرمایا ہے- اللہ نے اپنے انبیائ کو ھدایت کی کہ وہ نرم لہجے میں دین کی تبلیغ کریں اور کسی کے ساتھ زبردستی نہ کریں -
اللہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنایا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت گواہ ہے کہ آپ نے کبھی کسی کو زحمت نہ دی اور نہ ہی کسی سے انتقام لیا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے مثال برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کیا - اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دین کی تبلیغ کا آغاز کیا تو مکہ کے مشرکین نے آپ کو ظلم و ستم اور جبر و تشدد کا نشانہ بنایا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ صادق اور امین تھے آپ نے ہجرت مدینہ سے پہلے مکہ کے قریش کی امانتیں ان کو واپس کیں- جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین کی تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے تو طائف کے سرداروں نے نہ صرف دین حق کو مسترد کر دیا بلکہ اوارہ لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ صلی علیہ وسلم کو لہو لہان کر دیا - زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طائف کے لوگوں کے خلاف بد دعا کا مشورہ دیا- آپ نے بددعا کی بجائے ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی - اس موقع پر حضرت جبرائیل تشریف لائے اور عرض کی کہ اگر اللہ کے رسول حکم دیں تو طائف کی بستی کو نیست و نابود کر دیا جائے - آپ رضا مند نہ ہوئے اور برداشت کا مظاہرہ کیا- جب طائف کا وفد مدینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے رواداری سے پیش آئے حالانکہ ایک حدیث کے مطابق طائف کا دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا انتہائی تکلیف دہ دن تھا- مدینہ کے غیر مسلموں کے ساتھ تحریری میثاق مدینہ برداشت اور رواداری کا بے مثال ثبوت ہے- نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ آیا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیام کے لیے مسجد نبوی میں خیمہ نصب کرایا - ان کی مہمان نوازی کی- عیسائیوں نے اسلام کی دعوت قبول نہ کی اس کے باوجود ان کو مسجد نبوی میں اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کی اجازت دی- ایسی رواداری کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی- آپ صلی اللہ علیہ نے عیسائیوں کے ساتھ امن اور سلامتی کا معاہدہ کیا اور ان کو ضمانت دی کہ قیامت تک ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کی حفاظت کی جائے گی- اگر جڑانوالہ کے باسیوں کو اس تاریخی معاہدے کا علم ہوتا تو وہ اس کی پاسداری کرتے- فتح مکہ کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بے مثال برداشت اور رواداری کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے عام معافی کا اعلان کر دیا اور مشرکین سے کوئی بدلہ نہ لیا - اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوسفیان کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کے گھر کو پناہ گاہ کا درجہ دے دیا- ابوسفیان کی بیوی ہندہ جس نے آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا اسے بھی معاف کر دیا-
 عالمی مفکر جارج برنارڈ شا نے اللہ کے رسول کے اسوہ حسنہ سے متاثر ہو کر اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ اگر دنیا کے لوگ کائنات میں امن اور سلامتی چاہتے ہیں تو وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہبر و رہنما تسلیم کر لیں-ربیع الاول کے مبارک مہینے میں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیرت کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے- بیالوجیکل اینڈ اپلائیڈ سائنسز یونیورسٹی میں پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نعیم مبارک کی راہنمائی میں" مذہبی عدم برداشت کا سدباب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں" کے موضوع پر شاندار سیمنار کا انعقاد کیا گیا- جس میں یوتھ پارلیمنٹ کے مرکزی صدر محمد ابوبکر، وقار محمود ہاشمی، مفتی خلیل احمد یوسفی، ڈاکٹر مدثر شفیق، ڈاکٹر اصغر زیدی اور سٹوڈنٹس محمد حسن، محمد بلال اور راقم نے اظہار خیال کیا- اس سیرت کانفرنس میں طلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی-

ای پیپر-دی نیشن