• news

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے

سید وقاص انجم جعفری نے نہ صرف تعلیم و تعلم بلکہ خدمت خلق اور ادب کے میدان میں بھی اپنا نام پیدا کیا ہے۔جعفری صاحب عبقری شخصیت کے مالک ہیں جو جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل،الخدمت فاﺅنڈیشن کے سیکرٹری جنرل، ملک کے ایک معروف سکول سسٹم کے سی ای او،اوردیہی و پسماندہ علاقوں کے بچوں کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرنے والے الغزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے بانیان میں سے ہیں۔ ان کی تصنیف کا عنوان اور انداز بیان بھی بڑا اچھوتا ہے جس میںانہوں نے جن عظیم ہستیوں اور نابغہ ¿ روزگار شخصیات کا ذکر خیر جس محبت اور اپنائیت سے کیا ہے وہ واقعی اس کی حقدار تھیں۔حقیقت یہ ہے کہ سید وقاص انجم جعفری صاحب نے اپنی اس تصنیف کے ذریعے ہماری آنے والی نسلوں پر احسان کیا ہے کہ انہیں اپنے اسلاف کی حیات و خدمات، اسلام کی نشاة ثانیہ اور غلبہ ¿ دین کیلئے کی جانے والی جدوجہد سے جوڑ دیا ہے۔ان شخصیات کی زندگیاں آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ہیںاور جعفری صاحب کے جاندار انداز تحریر نے ان کو روشن چراغ کی طرح ہمارے سامنے رکھ دیا ہے کہ،اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی۔ ان ہستیوں میں سب سے پہلے عقیدت و محبت کا اظہار اور خراج تحسین مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒکو پیش کیا گیا ہے اور بلا شبہ یہ مقام و مرتبہ انہی کا ہے کہ وہی اس تحریک کے بانی اور فکری رہنما ہیں جنہوںنے سید وقاص انجم صاحب جیسے ہیرے تراشے ہیں۔”عصر حاضر میں مولانا مودودی ؒ سے بہتر شاید ہی کسی نے عقل کو کلمہ پڑھایا ہو“احمد جاوید کا یہ کہنا بہت خوب اور برمحل ہے کہ ”اگر آپ کسی پر احسان کرنا چاہتے ہیں تو اسے سید مودودیؒ سے روشناس کرا دیں“ کتاب میں جماعت اسلامی کے سابق امرا قاضی حسین احمد ؒ اور سید منور حسن ؒ کا بڑا سیر حاصل تذکرہ موجود ہے،اول الذکر نے جماعت اسلامی کے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھایااور آخر الذکر نے جماعت اسلامی کے نظریاتی،دعوتی اور فکر ی پیغام کو عام کیا۔دونوں شخصیات زندگی بھر اتحاد امت اور عالم اسلام کے اجتماعی مسائل کے حل کیلئے کوشاں رہیں۔ان کے مقام و مرتبہ کی دوسری کوئی شخصیت اس وقت نظر نہیں آتی۔قاضی صاحب کا خمیر جس مادے سے بنا تھا،یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سکون،آرام،سٹیٹس کو،مفاہمت،خموشی اور سہل پسندی کا خوگر ہوتا،کبھی ان کی آبلہ پائی کو جہاد افغانستان و کشمیر کاپیمانہ عطا ہوتا اور کبھی ان کی سیماب صفت زندگی اسلامک فرنٹ اور متحدہ مجلس عمل کا جامہ پہنتی۔گاہے وہ باہم نبرد آزما افغان دھڑوں کے غیض و غضب کو اپنی حکیمانہ تدبیروں سے اتحاد کی لڑی میں پروتے نظر آتے اور کہیں بین الاقوامی محاذپر ایران،عراق،بوسنیا کے رستے زخموں اپنے دل کی تاروں سے رفو کرتے دکھائی دیتے۔ایک مسلمان کی زندگی میں آرام و سکون،ٹھہراﺅ کے متعلق وہ خود کہتے تھے ”ایک سنسان ساحل کہنے گا:اگر چہ میں نے بہت زندگی گزار لی لیکن افسوس مجھے کچھ پتا نہ چلا کہ میں کیا ہوں۔ایک متوالی لہر تیزی سے اترا کے چلی اور بولی:اگر میں چلتی رہوں تو میں ہوں،نہ چلوں تو میں نہیں ہوں“ سید وقاص انجم جعفری نے بعض ادیبوں کے بعض جملوں کو نگینے کی طرح استعمال کیا ہے۔سید منور حسن کا تذکرہ کرتے ہوئے صاحب طرز ادیب مختار مسعود کہہ گئے ہیں کہ ”بڑے آدمی انعام کے طور پر دیئے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لئے جاتے ہیں“مصنف نے اپنے والدین کا ذکر جس محبت،اظہار تشکر اورفرمانبرداری سے کیا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے اور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کے بچے فرمان رسول ﷺ کے مطابق ان کے لئے صدقہ ¿ جاریہ بن گئے ہیں۔بعض گمنا م درویش بھی اس کتاب کی وساطت سے قارئین کے لئے پہاڑی کے چراغ بن جائیں گے،جیسے ملکہ کوہسار مری کے حاجی غلام قادرعباسی صاحب جنہوں نے مری کے علاقے میں دختران اسلام اکیڈمی بنا کر علاقے بھر کی خواتین کو علم کی شمع سے وابستہ کردیا ہے۔
کتاب میں ڈاکٹر احسن اختر ناز اور ڈاکٹر حسن صہیب مراد جیسے ملک کے مایہ نازماہرین تعلیم کی کاوشوں کو بھی نذرانہ ¿ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔کتاب میں ڈاکٹر حافظ حمید اللہ،ڈاکٹر سید وسیم اختر،امجد اسلام امجد،ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ،شفیق الاسلام فاروقی،عامر محمود چیمہ سمیت 25ایسی شخصیات کے تذکار ہیں جن کی زندگیوں سے بہت کچھ کسب فیض حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ کتاب اپنے قارئین کو مایوسی اورناامیدی جیسی تاریکیوں سے نکالنے اور امید کے روشن ستارے بننے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔مصنف نے اس کتاب کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”اچھا دوست اور اچھی کتاب مل جائے تو اسے خود تک محدود رکھنا کم ظرفی کی علامت ہے،چنانچہ میں ایسے ہی کچھ گرانمایہ دوستوں کا تعارف اس کتاب کی شکل میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔دوستوں کو میں نے پرکھ لیا ہے۔کتاب کے بارے میں آپ خود فیصلہ کیجئے“
جعفری صاحب نے اپنی تصنیف میں،لکڑ ہارے اور مالی، دو انسانی رویوں کے بارے میں لکھا ہے،لکڑ ہارا تو ایک فوری اور وقتی ضرورت کے تحت آﺅ دیکھتا ہے نہ تاﺅ معصوم شاخوں اور گھنے درختوں سے ان کی زندگیاں اور وجود چھین لیتا ہے جبکہ مالی طبع لوگوں کے مزاج میں سلیقہ،ترتیب اور نفاست بدرجہ¿ اتم پائی جاتی ہے۔مالی صفت لوگ کسی بھی زندہ معاشرے کی پہچان ہوتے ہیں۔یہ زمین کا نمک اور پہاڑی کے چراغ ہوتے ہیں۔کبھی کبھی تو ان کی محنت ان کی زندگی کے بعد پھل پھول دیتی ہے۔اکثر ان کا سرمایہ کسی اور کی ہتھیلی کا چراغ بن کر نمودار ہوتا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ مالیوں کی صفات والے انسان بہت کم معاوضے پر شادابی،زرخیزی،حسن اور لطافت کی دولت دوسروں کو سونپ دیتے ہیں اور اپنے حصہ میں قناعت کو پاکر شاد آباد رہتے ہیں۔بالکل اس بزرگ کی طرح جو آم کا پیڑ لگا رہا تھا،کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کو امید ہے کہ یہ آپ کی زندگی میں پھل دے گا،بزرگ نے نہایت اطمینان سے بتایا کہ میں تو اس درخت کے آم نہیں کھا سکوں گا مگر میری آنے والی نسلیں اس کا پھل ضرور کھائیں گی۔میرے بڑوں نے پھولوں اور پھلوں کے جو بیج بوئے تھے ہم نے ان سے استفادہ کیا اب ہم جو پودے لگائیں گے ان کا پھل ہمارے بچے کھائیں گے۔
 کتاب کے مطالعہ کے بعدمیرے دل میں جعفری صاحب کی قدر و منزلت مزید بڑھ گئی ہے۔انہوں نے آئندہ نسلوں کے ہاتھ میں علم کا ایک ایسا خزانہ دے دیا ہے جو، ان کی زندگیوں میں انقلابی روح بیدارکرے گا۔مجھے یقین ہے کہ میری طرح جو بھی اس کتاب کو ایک نظر دیکھ لے گا وہ اسے حاصل کرنے کی جستجو کرے گا اور اس کو پڑھے بغیر نہیں رہے گااور جس نے اس کتاب کا گہرائی سے مطالعہ ¿ کرلیا اس کی زندگی تبدیل ہو ئے بغیرنہیںرہے گی۔
٭....٭....٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن