مستونگ سانحہ۔۔۔ اہم اور بروقت اقدامات کی ضرورت
12ربیع الاول کے بابرکت دن جب حضورﷺ کی ولادت کا جشن منانے کے لئے عاشقان رسول پوری دنیا خصوصاً پاکستان بھر میں نعت و میلاد کی محافل اور جلوس نکال رہے تھے تو اس بابرکت موقع پر مستونگ میں جلوس کے درمیان خودکش حملہ ہوا جس میں 60سے زائد عاشقان رسولﷺ شہید ہوئے اور کئی زخمی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ مستونگ پر پریس کانفرنس میں حملے کے ذمہ داروں پر اسٹرائیک کرنے کا عندیہ دیا اور کسی بھی صورت میں دہشت گردی برداشت نہ کرنے اور سخت ترین ایکشن کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر داخلہ نے تاثردیاکہ دہشت گردی پڑوسی ممالک سے ہورہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی و جرائم میں 70%غیر ملکی ملوث ہیں۔ لیکن ملک کو ان حالات کا شکار کرنے میں ہمیں ماضی کی غلطیوں پر نظر ڈالنی ہوگی۔
1979ءمیں جب سوویت یونین نے افغانستان پر جارحیت کی تو امریکہ نے اسے غنیمت جانا اور کابل پر سوویت پرچم لہرائے جانے تک امریکہ نے پاکستان میں یہ تاثر عام کردیا کہ سوویت یونین کی اگلی منزل اسلام آباد ہے اور وہ گرم پانیوں تک رسائی کے لئے ہر صورت آگے بڑھے گا اور اسکا اصل ہدف پاکستان ہی ہے۔امریکی ڈالرز کی برسات‘ اسلحہ‘ تربیت اور پروپیگنڈہ اس قدر موثر ثابت ہوا کہ سوائے ولی خان اور ایئرمارشل اصغر خان کے تمام سیاسی‘ مذہبی لیڈرز‘ حکمران اور عسکری قیادت امریکہ جھانسے میں آگئی اور انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کرنے کی غلطی کرلی کہ یہ جنگ اصل میں پاکستان کی جنگ ہے لیکن اس تمام امریکی کوششوں کے پیچھے امریکہ سووویت یونین سے ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ایئرمارشل اصغر خان مرحوم نے برملا کہا کہ سوویت یونین کا تعاقب نہ کیا جائے کیونکہ وہ واپس جارہا ہے اور اگر ہم نے کوئی غلطی کی تو ہماری آئندہ 3نسلیں اس کے بدترین اثرات کا شکار رہیں گی لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی اور انہیں ”روس کا ایجنٹ“ قرار دیا گیا۔ کابل کی فتح کے بعد پاکستان نے امریکی اشاروں پر نہ ختم ہونیوالی غلطی کا آغاز کیا اور اس سے پہلے کہ خدانخواستہ سوویت فوجیں پاکستان کی جانب پیشقدمی کرتیں‘ پاکستان نے افغانستان میں جاکر انکا تعاقب کیا اور امریکی فنڈنگ اور امداد کی بنیاد پر روس کو بدترین شکست سے دوچار کیا حالانکہ سوویت یونین کے پاس سینکڑوں ایٹم بم تھے لیکن وہ معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث نہ صرف بدترین شکست سے دوچار ہوا بلکہ اپنی سالمیت برقرار نہ رکھ سکا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ۔ اس طرح ایک سپر پاور کا دنیا سے خاتمہ ہوا۔ہم نے امریکی مفادات کی جنگ میں 1979ءسے حصہ لیا لیکن اس وقت امریکی ڈالرز کی چمک کے باعث اسے پاکستان کے مفاد کی جنگ قرار دیا گیا۔سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد افغان عوام نے ہجرت کی اور ایران و پاکستان کا رخ کیا۔ ایران نے انہیں بارڈر کے ساتھ کیمپ بناکر محدود علاقے تک رہائشی سہولتیں دیں جبکہ پاکستان نے ملک بھر میں انہیں کھلی رسائی دی جس کے اثرات آج سب کے سامنے ہیں۔ایران نے حالات ٹھیک ہونے پر افغان مہاجرین کو واپس ان کے ملک بھیج دیا جبکہ ہم نے پورا ملک افغانیوں کے حوالے کردیا جس سے ہمارے ملک میں اسلحہ‘ منشیات اور اسمگلنگ عام ہوگئی۔
جیسے ہی سوویت یونین کی سپرپاور حیثیت ختم ہوئی تو جن مجاہدین کو دنیا بھر سے امریکہ اس خطے میں لایا تھا اوران کے سنگ طورخم بارڈر پر امریکی جرنیل کلمہ شہادت بلند کیا کرتے تھے‘ انہیں امریکہ نے پہلے طالبان‘ پھر القاعدہ اور اب دہشت گرد قرار دیکر ان کے لئے زمین تنگ کردی تو دوسری طرف امریکہ نے افغانستان پر مکمل قبضہ جمالیا اور پاکستان کو بطور آلہ کار استعمال کیا جس سے پاکستان کو کم و بیش 70ہزار سے زائد سول و عسکری شہادتوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ارب ڈالرز کا معاشی نقصان ہوا اور ساتھ ساتھ پاکستان میں اسلحہ‘ منشیات اور دہشت گردی کی ایسی لہر آئی کہ جس سے اب تک نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔ عالمی طور پر امریکہ کے واحد سپرپاور بن جانے کے بعد تو نقشہ ہی بدل گیا اور امریکہ نے مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے اپنے نشانے پر رکھ لیا جس کی وجہ سے آج عراق‘ شام‘ لیبیا‘ افغانستان سمیت کئی ممالک کی حالت قابل رحم ہے۔امریکہ اب مزید دیگر مسلم ممالک پر قبضے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔جو لوگ جنرل مشرف پر امریکی جنگ میں حصہ لینے کا الزام لگاتے ہیںدراصل وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1979ءمیں امریکی جنگ میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ اپنا پورا مفاد حاصل کیا لیکن اب وہ یہ بات تسلیم کررہے ہیں کہ حقیقت میں ایئرمارشل اصغر خان مرحوم اور ولی خان مرحوم کا موقف بالکل درست تھا اور پاکستان نے سوویت یونین کا تعاقب کرکے بدترین غلطی کی۔
پاکستان کو اب بڑے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے اور افغانیوں سمیت تمام ممالک کے غیرقانونی مقیم افراد کو پہلی ترجیح میں ان کے ممالک میں واپس بھیجنا ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر ٹھہرانے والوں کے خلاف بھی سخت ترین ایکشن درکار ہے۔ اس کے علاوہ نادرا سمیت وفاقی و صوبائی اداروں میں ایسے کرپٹ ملازمین کے خلاف سخت ترین ایکشن کی ضرورت ہے جو اپنے مالی فوائد کی خاطر غیر ملکیوں کو جعلی یا اصلی دستاویزات بناکر دیتے ہیں جس سے ان کے پاکستان میں غیرقانونی قیام میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔
ہر بڑے سانحے کے بعد سخت بیانات تو دیئے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ضروری اقدامات و فیصلے نہیں کئے جاتے اور نہ ہی یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام ادارے اپنا مخصوص موثر کردار جار ی رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پے درپے سانحے رونما ہوتے ہیں۔ سانحہ مستونگ کے بعد ہمیں اپنے روایتی رویئے میں تبدیلی لانی ہوگی اور پڑوسی ممالک سے دہشت گردی کرنے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن ایکشن لینا ہوگا۔