• news

شہباز شریف کی گاڑی پر حملہ

بوجوہ ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہو رہی ہے۔ اخبارات کی اشاعت تو پہلے ہی متاث ہو چکی، اب لگتا ہے کہ مستقبل کا میڈیا ”سوشل میڈیا ”سوشل میڈیا“ ہی ہو گا۔ بہرحال ، کل کی تاریخ میں ٹی وی سکرین سے چپک کر بیٹھنے والوں کی تعداد نے ورلڈ کپ کا منظر یاد کرا دیا۔ پتہ چلا کہ پی ٹی آئی کے لاپتہ رہنما عثمان ڈار کا پتہ چل گیا ہے اور اب وہ سکرین پر جلوہ ریز ہو کر 9 مئی کے جلوﺅں سے پردہ اٹھانے والے ہیں۔ ڈار صاحب کو ٹی وی پر کون لایا یہ پتہ نہیں اور کیا وہ خود آئے، یہ بھی پتہ نہیں، بہرحال کسی واقف حال ماہر طب کا خیال ہے کہ موصوف کو کسی نے وہ انجکشن لگا دیا جس کے بعد آدمی سچ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے چنانچہ جونہی ٹیکے نے اثر دکھایا، وہ بھاگتے ہوئے اپنے پرانے واقف کار میڈیا پرسن کی حویلی جا پہنچے اور ایک طویل و عریض سچ ریکارڈ کرایا۔ جس نے ہر طرف دھوم مچا دی لیکن اس دھوم سے خان اور ان کے چاہنے والوں کے سر گھوم گئے۔ 
عثمان ڈار نے بتایا کہ 9 مئی کے تمام واقعات کی منصوبہ بندی خان صاحب نے کی اور انہی کا حکم تھا کہ میری گرفتاری کی صورت میں فلاں اور فلاں فوجی عمارتوں کا آپ نے کچھ نہیں چھوڑنا۔ ”کسی کو نہیں چھوڑوں گا“ کے عزم بالجزم کی زد میں پاک فوج بھی آ جائے گی، یہ کسی کو نہیں پتہ تھا لیکن پی ٹی آئی کے بشرطِ استواری والے وفاداران کو داد دیجئے کہ انہوں نے خان کے اس حکم پر نیا کوئی سوال اٹھانے یا اندیشہ ظاہر کئے پورا پورا عمل کیا۔ 
حملہ آور 9 مئی کو اتنے بے خوف کیوں تھے؟۔ ڈار نے اس راز سے بھی پردہ اٹھایا۔ کہا کہ خان صاحب نے حملہ آور جتّھوں کو بتایا تھا کہ تم بے فکر ہو کر حملہ کرنا، کوئی نہیں کچھ نہیں کہے گا بلکہ تمہاری مدد، اندر سے، کی جائے گی۔ خان صاحب نے یہ بات کس یقین دہانی پر کہی اور یہ یقین دہانی کس نے کرائی، اس راز سے ڈار صاحب پردہ نہیں اٹھا سکتے تھے۔ جو اٹھا سکتے تھے، وہ سب جان گئے، کسی دن اس کی تفصیل سے بھی پردہ اٹھ ہی جائے گا۔ 
_____
عثمان ڈار کہتے ہیں کہ میں کچھ عرصے سے کشمکش میں تھا اور کافی سوچ بچار کے بعد حق سچ کی بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہمارا خیال ہے کہ ان کا یہ دعویٰ درست نہیں، وہی سچ کا ٹیکہ لگنے والی بات ٹھیک لگتی ہے اور۔ ٹیکہ اکیلے انہی کو نہیں لگا، بہت سے دوسروں کو بھی لگا ہے اور اس ٹیکے کی زوراثری دیکھتے کہ عمر ایوب، زلفی بخاری، مراد سعید اور ان جیسے چند مزید ثابت فرماں کے علاوہ پوری کی پوری پی ٹی آئی باجماعت میدان سے غائب ہو گئی ہے۔ کچھ کسر رہ گئی تھی، وہ ڈار نے پوری کر دی۔ 
ڈار نے مزید بتایا کہ وہ مشہور زمانہ لانگ مارچ جس نے راولپنڈی جانا تھا لیکن اسلام آباد ہی میں ٹھٹھر کر رہ گیا، حافظ صاحب کی بطور آرمی چیف تقرری رکوانے کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن تقرری نہ رک سکی، ہو کر رہی اور اس ہو کر رہنے والی تقرری کے بعد وہ سب ہو کر رہا جو ہو کر رہتا تھا۔ 
ڈار کے انٹرویو کے مندرجات پر ہر کوئی بحث کر رہا ہے لیکن سوچنے والی ایک بات تو نظرانداز ہی کر دی گئی۔ 
یہ کہ خان کے زوال کا آغاز 9 مئی سے نہیں ہوا تھا، 9 مئی سے تین سال پہلے ہی شروع ہو گیا تھا جب انہوں نے جنرل فیض کو ہر صورت آئی ایس آئی کا چیف رکھنے کا اصرار کیا۔ ان کی ضد کی وجہ سے معاملہ دو مہینے کے لیے ضرور ٹلا لیکن ہونی ہو کر رہی، ٹل نہ سکی اور بالآخر نومبر 2021ءمیں جنرل ندیم انجم آئی ایس آئی کے چیف بن گئے۔ پی ٹی آئی والے خود روایت کرتے ہیں کہ خان کو ان کے گھر سے تسلی دی گئی تھی کہ ایسا عمل کرنے والی ہوں کہ فیض کو ہٹانے کی ہر کوشش ناکام ہو جائے گی اور خان کو اس تسلی پر اتنا یقین تھا کہ وہ پارٹی اجلاس میں برملا کہتے کہ فیض کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا، وہ اپنی جگہ تعینات رہیں گے۔ 
لیکن خانگی تسلیاں چلّوں اور عملیات سمیت بے ثمر رہیں۔ فیض گئے، پھر تحریک عدم اعتماد آئی، گھر سے پھر تسلی دی گئی کہ یہ تحریک ناکام ہو گی۔ خان کو پھر یقین آ گیا اور خان ہی کو نہیں، شیخ رشید کو بھی یقین آ گیا اور اتنا کہ انہوں نے اعلان کر دیا کہ کسی کا باپ بھی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب نہیں کرائے گا، یہ تحریک ناکام ہو گئی ہے، ناکام ہو گئی ہے، ناکام ہو گئی ہے۔ یہ تین بار انہوں نے کہا لیکن تحریک کامیاب ہو گئی اور شیخ صاحب کو صدمہ انگیز حیرت یہ ہوئی کہ تحریک کی کامیابی میں ”باپ“ کا بھی پورا ہاتھ تھا۔ وہی بلوچستان والی ”باپ“ پارٹی۔ 
تب سے اب تک خان صاحب نے کوئی 50 کے قریب انقلاب انگیز اقدامات کئے، تمام کے تمام یاس انگیز ناکامی سے دوچار ہوئے۔ اب سائفر اور 9 مئی کے کیس دن بدن ان کیلئے ”خطرے ناک“ ثابت ہونے والے ہیں اور میدان میں کوئی شیخ رشید بھی نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ کسی کا باپ بھی ہمارے خان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ 
_____
دیکھئے شیخ صاحب خود بخود یاد آ گئے۔ وہ کہاں ہیں، کسی کو نہیں پتہ۔ س±نا ہے گرفتار         
شیخ صاحب ہر ماجرا پندرہ دن یا مہینہ بھر پہلے دیکھ لیتے تھے۔ ہر ہفتے ان کا یہ بیان آتا تھا کہ اگلے ہفتے یہ ہوتے دیکھ رہا ہوں، اگلے پندرھویں میں وہ ہوتے دیکھ رہا ہوں، اگلے تین مہینے میں ایسا ہوتے دیکھ رہا ہوں اور اگلے چھ مہینے میں ویسا ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ 
حیرت کی بات ہے، ایسا کوئی بیان انہوں نے نہیں دیا کہ اگلے مہینے خود کو اندر ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ 
_____
شاہدرہ کی تنگ گلی میں جلسہ کرنے کا خمیازہ مسلم لیگ نے خوب بھگتا۔ اس پروپیگنڈے والی مہم خوب چلی کہ لاہور مسلم لیگ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ 
گزشتہ روز شہباز شریف کے اچانک دورے نے یہ پراپیگنڈا زائل کر دیا بلکہ اس کا 9 مئی بنا دیا۔ وہ کسی پیشگی تیاری، اعلان، تشہیر یا کارکنوں کی ”ایکٹی ویشن“ کے اچانک گجومتہ کے علاقے میں پہنچ گئے اور وہاں سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد نے ان کا پورے درجہ حرارت والے جوش کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ اس استقبال نے منظر واضح کر دیا، منظر کے اوپر آن پڑی سموک سکرین کو صاف کر دیا۔ 
ان کی کار کو علاقے کے ان لیگی کارکنوں کے ایک گروہ نے گھیر لیا جو پرانے روھی نالہ کی بحالی کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے پر مقامی لیگی رہنما جو وزیر بھی رہے، کی نااہلی پر احتجاج کیا۔ شہباز نے وفد کے قائد کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ان کی بات سنی اور مسئلہ حل کرانے کا یقین دلایا جس کے بعد زندہ باد کے نعروں کی ایک اور لہر اٹھی۔ 
پی ٹی آئی کے پروپیگنڈہ سیل نے گالیوں کی ایک آڈیو اس وڈیو پر اوورلیپ کر کے وائرل کر دی، دیکھو، اہل لاہور نے کس طرح گندی گالیوں سے شہباز کا استقبال کیا۔ اتناہی نہیں ، کسی اور جگہ پر کسی اور کی گاڑی پر کسی اور کے حملے کی پرانی ویڈیو بھی ساتھ جوڑ دی۔ اس شاندار کارنامے کے باوجود فضا عثمان ڈار کے انٹرویو کے گرد ہی گھومتی رہی۔ پی ٹی آئی کا یہ دھماکہ تو پٹاخہ بھی نہ بن سکا۔ 
اصل کراﺅڈ ملیر تو مریم نواز ہیں، ابھی تک ان کے جلسے جلوس کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا، اگلی حکومت کس کی ہو گی، سارا قصہ کہانی ایک دم صاف ہے۔ مسلم لیگ ن چوتھی بار حکومت بنانے جا رہی ہے۔ مشورہ اس بیج اتنا ہے کہ میاں نواز شریف نے قبلہ اسحاق ڈار کو دو سال کے لیے تبلیغی چلّے پر بھیج دیں اور اس پانچ سالہ مدّت بے دھڑک پوری کریں۔ انہوں نے اس کے برعکس کیا تو برعکس ہونے کا شدید خدشہ رہے گا۔ 
_____

ای پیپر-دی نیشن