غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کا اصولی فیصلہ
آخر کار پاکستان کی حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم ان تمام باشندوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو مختلف ادوار میں ویزہ لے کر یا بغیر ویزہ کے پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں انھوں نے مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ان غیر ملکیوں میں اکثریت ان افغانیوں کی ہے جو افغانستان پر سویت افواج کے قبضہ کے بعد وہاں جاری جنگ کی وجہ سے پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تاہم یہ تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی۔ 40 سے 50 لاکھ افغان مہاجرین اس وقت پاکستان میں داخل ہوئے جب افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سویت افواج کا انخلاءہوا اور کابل پر قبضہ کے لیے افغان مجاہدین کے مختلف دھڑے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ یہ خانہ جنگی اس قدر خوفناک تھی کہ جس نے پورے کابل کو کھنڈرات اور ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا۔ حالت یہ ہوئی کہ باہم برسرپیکار افغان مجاہدین کو باہم جنگ و جدال سے روکنے کے لیے اقوام متحدہ کو مداخلت کرنا پڑی تاکہ ایک ہفتہ کی جنگ بندی کے دوران افغان شہری اپنے خاندانوں سمیت شہروں سے نکل سکیں۔ خانہ جنگی میںملوث تمام افغان مجاہدین دھڑے جدید ترین امریکی ساختہ اسلحے اور بھاری ہتھیاروں سے مسلح تھے اس اسلحہ میں ٹینک اور توپیں بھی شامل تھیں اور بعض ہوائی قوت سے بھی لیس تھے اور مخالفین کے خلاف جنگی جہازوں کا آزادانہ استعمال کررہے تھے۔ اقوام متحدہ کی مدد سے پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) اور بلوچستان میں مہاجر کیمپوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جہاں صرف غریب افغان خاندانوں نے رہنا پسند کیا جبکہ باوسائل افغانیوں نے دولت کے بل بوتے پر اسلام آباد،پشاور اور کراچی میں بنگلے اور کوٹھیاں کرائے پر لے کر وہاں سکونت اختیار کرلی۔
اکثریتی افغان مہاجرین کے لیے پاکستان کا صوبہ سرحد اور بلوچستان اجنبی علاقے نہیں تھے۔ ایک ہی طرح کی زبان، لباس، ریت و رواج اور ایک جیسی خوراک نے مقامی آبادیوں اور مہاجرین کے درمیان جلد ہی اجنبیت کا خاتمہ کر دیا۔اس میں اسلامی بھائی بندی کے علاوہ سرحد کے دونوں طرف آباد قبائل کی باہمی رشتہ داریوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب پاکستانی حکام افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھنے میں ناکام ہوئے اور یہ مہاجرین کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کے ساتھ پاکستان کے شہروں میں پھیلتے چلے گئے۔ منشیات کے کاروبار سے حاصل ہونے والا وافر اور آسان منافع میں جب پاکستان کے مقامی لوگوں کو حصہ ملنا شروع ہوا تو پھر ہیروئن کی شکل میں منشیات اور اسلحہ کے حوالے سے کلاشنکوف نے پاکستان میں وباءکی صورت اختیار کرکے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ بات یہی نہیں رکی بلکہ بہت سے افغان مہاجرین پیسے کے بل بوتے پر پاکستان کی شناخت اور پاسپورٹ تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یوں پاکستانی پاسپورٹ پر ملک سے باہر جاکر ان کی طرف سے کیے جانے والے مختلف جرائم الگ سے پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنے ۔یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہے کہ فروری 1979 ءمیں امام خمینی کی ایران آمد اور کامیاب اسلامی انقلاب سے خوف زدہ ہو کر ہزاروں کی تعداد میں لبرل اور ماڈریٹ ایرانی بھی کراچی منتقل ہوئے ان میں سے کچھ بعد ازاں مغربی ممالک و امریکہ منتقل ہوگئے جبکہ باقی آج بھی پاکستان ہی میں آباد ہیں۔
1980 ءاور 90 ءکی دہائیوں میں بھارت ، بنگلہ دیش، برما اور نیپال سے غیر قانونی طریقہ سے پاکستان خصوصاّ کراچی میں آکر آباد ہونے والوں کی تفصیلات بھی قومی اخبارات میں خبروں کی زینت بنتی رہیں۔ یہ اطلاعات بھی آتی رہیں کہ حکومت ان تمام غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں اور کون سے عوامل غیر قانونی طور پر مقیم ان عناصر کو ملک سے نکالنے میں رکاوٹ بنے رہے۔ کراچی جو کہ پڑھے لکھے اور بہت ہی سلجھے ہوئے بااخلاق پاکستانیوں کا شہر اور فنون لطیفہ کا گڑھ تھا اسے جہنم زار بنا دیا گیا۔ رہی سہی کسر افغان مہاجرین کی آڑ میں ملک میں دہشت گردی کا طوفان برپا کرنے والوں نے پوری کر دی جنھیں بھارت سمیت دیگر غیر ملکی قوتیں استعمال کر رہی تھیں لیکن افسوس یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔آج بھی پاکستان میں دہشت گردوں کے لیے افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے جسے روکنے میں افغان عبوری حکومت مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ جس میں ایسے گروہ بھی ہیں جو تحریک طالبان پاکستان سے قریبی روابطہ رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی بھی افغان عبوری حکومت کا بڑا مسئلہ ہے جو پاکستان سے ملحقہ دشوار گزار پہاڑو ںمیں چھپے ہوئے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
افغانستان کے داخلی حکومتی مسائل اپنی جگہ پاکستان کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں معاشی استحکام اور ملک کی سلامتی ہے جو آئے روز ہونے والے خودکش دھماکوں اور سرحد پار ختم نہ ہونے والی سمگلنگ سے شدید دباﺅ کا شکار ہے۔ پاکستان سے ڈالروں کو افغانستان منتقلی نے معیشت کا جو حال کیا ہے یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے ڈالروں کی بڑے پیمانے پر افغانستان منتقلی میں معاونت کے علاوہ سمگلنگ میں پاکستان کے اپنے لوگ بھی ملوث ہیں ۔لیکن اب جبکہ پاکستان کو اقتصادی طور پر بند گلی میں پہنچا دیا گیا ہے تو اس سے نکلنے کے لیے سیاسی مداخلت اور چند افراد کے ذاتی مفادات سے ہٹ کر ایسے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے جو پاکستان کو امن و امان اور معاشی طور پر استحکام کی طرف واپس لانے میں مدد گار ثابت ہوسکیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی طو رپر مقیم غیر ملکیوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ انتہائی اہم اور بنیادی قدم ہے ۔ اس کے بعد پاکستان کے ان عناصر کے خلاف بھی قانون حرکت میں آنا چاہئے جو غیر ملکیوں کو پاکستان میں قیام کے لیے شہریت کی جعلی دستاویزات کی فراہمی میں سہولت کاری کے مرتکب ہوئے یا ہرطرح کی سمگلنگ میں غیر ملکیوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔