• news

تہذیب بھی پہچان ہواکرتی ہے

ہر معاشرے کی اپنی تہذیب و تمدن ہوتا ہے۔ وہی تہذیب و تمدن اس معاشرے اور انسانوں کی پہچان بنتا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے اگر بات کریں تو یہاں رنگا رنگ تہذیب و تمدن پایا جاتا ہے، یہ اس لیے ہے کہ ماضی میں پاکستان کا علاقہ مختلف قبائل مثلاً ایرانی، یونانی،آریا، عرب، منگول اور ترک وغیرہ میں شامل رہا جس کی وجہ سے ان کی تہذیبوں کا عکس ہماری تہذیب پہ واضح نظرآتا ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی موسم اور آب وہوا کا بھی بہت حد تک تہذیب بنانے میں ہاتھ نظرآتا ہے۔ علاقوں کے حوالے سے موسیقی کو تہذیب سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، ہرعلاقے کا اپنا مخصوص ساز اور سازینے ہیں مخصوص رقص بھی علاقوں کی اپنی جاگیر میں شمار کیے جاتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کے مختلف رنگ و انداز اور ہیئت کے ساتھ ساتھ مہمان نوازی، ملنساری کے بھی بہت پیارے انداز ہیں، ہمارے ہاں موجود تہذیب و تمدن روایات، ثقافت اور قدروں کو اگر دوسرے ممالک اور مذاہب کے علاقوں سے مماثل کیا جائے تو پاکستانی اور اسلامی معاشرہ بہترین قرار دیا جائے گا۔ میرا کوئی تعصبانہ رویہ نہیں ہے حقیقت میں ایسا ہے کیونکہ انسانیت ہی ہمارے مذہب کی اساس ہے۔
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ تہذیب کا عکس ملک و قوم اور مذہب کی اجتماعیت سے اپنی تصویر مکمل کر پاتا ہے۔ ایک قوم کی تہذیبی شخصیت سے دوسری تہذیبیں تھوڑا بہت متاثر ضرور ہوتی ہیں لیکن اکثر تہذیب و تمدن سے چند خاص اور منفرد خصوصیتیں اپنا آپ منوا کے رہتی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں جو عزت و احترام مہمان کو دی جاتی ہے وہ انھی کی تہذیب کا خاصہ ہے اور سندھی علاقے میں مہمانوں کو خاص تحفے تحائف اور روایتی اجرک اور شیشوں والی ٹوپیاں دے کر رخصت کرنا ان کی پہچان ہے۔ پنجاب میں تاریخی مقامات اور درباروں کی زیارت، ان کی مہمان نوازی کا اہم جزو ہے، ساتھ ہی اندرون شہر کے پائے، ٹکاٹک، نہاری جیسے کھانے بھی پنجاب کی ثقافت کا حصہ ہیں، بلوچستان کے بلوچی انتہائی سخت جان اور روایت میں شدت پسندی کو اپناتے ہیں مگر بنیادی طور پر جری اور جفاکشی ان کی تہذیب کا اثاثہ ہے۔
جن معاشروں کی تہذیب و ثقافت اور روایات ہوتی ہیں وہ اپنا قد و قامت بلند سے بلند ترکرتے چلے جاتے ہیں مگر جن ممالک کی اپنی خاص تہذیب اور تمدن اور قدریں نہیں ہوتیں وہ اپنی احساس محرومی کی وجہ سے خاص سازشوں کے تحت دیگر ممالک کی تہذیب پہ اپنی چھاپ لگانے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ ان کی یہ تحریک باقاعدہ منظم طریقے سے جاری ہے اور خاص طور پر اس پروپیگنڈا سے متاثرکرنے کے لیے مسلمانوں کی فہرست صف اول میں لکھی گئی ہے۔ مغربی ممالک جن کا اصل مطمح نظر اپنی تہذیب کو اس طرح پھیلانا اور پیش کرنا ہے کہ ان کی تہذیب و تمدن کو سب پسند کریں اور دنیا میں پھیلی اسلامی تہذیب و تمدن اور پاکستان کی قدریں اور روایات کو اپنانے کی بجائے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھیں اور دقیانوس قرار دے کر ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھنے لگیں، ہم سب جانتے ہیں کہ یورپی ممالک میں جو بھی تہذیب و ثقافت موجود ہے وہ سب مسلمانوں کی ہی عطا کردہ ہے۔
آج اگر ہم سب مسلمان اس بات پر اکائی کا اظہار کریں کہ اسلامی تہذیب و تمدن اور قرآن وسنت کی رو سے ہی دیگر اقوام کی تہذیب وتمدن اور روایات کی کونپلیں پھوٹتی ہیں تو ایک دن مغربی اور مشرقی یورپی ممالک کو بھی اس سچائی کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔مو¿رخین کے نزدیک پانچ بڑی تہذیبیں ہیں جن میں سب سے اول نمبر پہ اسلامی تہذیب ہے جس کا سکہ آج بھی چل رہا ہے اس تہذیب نے بہت تعمیری اور مثبت انداز میں دوسری تہذیبوں جن میں چینی، ہندی کے علاوہ مغربی اور مشرقی یورپ کی تہذیبیں شامل ہیں کو بے حدمتاثر کیا ہے اور یہ بات عین حقیقت ہے کہ انسان کی فلاح کے تمام دروازے نہ صرف اسلامی تہذیب سے کھلتے چلے جاتے ہیں بلکہ امن وآشتی کی سرزمین میں رنگ اور چاشنی انھی علاقوں میں ہے جہاں یہ انسان اپنے ماضی، اسلاف اور تہذیب وتمدن سے جڑا ہوا ہے۔
صحت مند معاشرے کا سانس لینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہاں تہذیب وتمدن ابھی زندہ ہے جو قومیں تہذیب و تمدن کی اہمیت سمجھتی ہیں وہ محبتوں، رشتوں، دکھی انسانیت کے احساس سے کبھی عاری نہیں ہو سکتیں لیکن شومیِ قسمت اب ہماری تہذیبوں پر مغربی تہذیب کا رنگ چڑھنے لگا ہے اور اس میں سب سے زیادہ کردار تمام الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ مغربی موسیقی، مغربی لباس، مغربی زبان اورمغربی طور اطوار سب کو اس طرح ہماری نوجوان نسل نے اپنے گلے لگا لیا ہے۔ ہماری طاقتور اور عرصہ قدیم سے پنپنے والی تہذیبیں لرز اٹھی ہیں ہم اپنی ماں بولی پنجاب کو اپنی روز مرہ کی زبان میں لانا بے عزتی سمجھتے ہیں جبکہ دیگر ممالک کے صدور بھی اپنی زبان کو اہمیت دینے کے لیے اپنے ساتھ ایک متراجم لے کے آتے ہیں اور ہم صرف انگریزی نہ بولنے کی وجہ اپنے ہی ملک میں بے روزگاری کی تختی گلے میں طوق کی طرح لٹکائے ہوتے ہیںکسی بھی ملک کا لباس اور زبان تہذیب وتمدن اور ثقافت کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہواکرتاہے مگر شومیِ قسمت سے ہم اس زمرے میں ’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘ کے مصداق چل رہے ہیں قومی لباس کا احترام اور اپنی زبان کا فروغ اس صورت میں ہوگا جب ہم دیگر ممالک میں جاکر اپنا لباس پہنیں اور کاروبار کی مجبوری کے علاوہ اردو میں بات کریں مگر ہم تو اپنے بچوں کو بھی اردو اور پنجابی سے کوسوں دور لے جاتے ہیں۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن