• news

ایک غیر اجلی رات کا سفر

اگست 2014 کا وہ دن میرے اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کیلئے بڑا اہم تھا۔ ڈاکٹر صاحب ا±س روز اپنا انقلابی مشن شروع کرنے کیلئے لاہور سے اسلام آباد کی طرف پیش قدمی فرما رہے تھے اور میں بیوی بچوں کے ساتھ اپنی بیٹی کو لینے کیلئے راولپنڈی سے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ لاہور کی طرف گامزن تھا۔ میری بیٹی، جو پی ایچ ڈی کرنے کیلئے اپنے خاوند کے ہمراہ ا±ن دنوں ملائشیا میں مقیم تھی، اپنی ڈیڑھ ماہ کی بیٹی ہانیہ اسد کے ساتھ لاہور ائیر پورٹ پر اتر رہی تھی۔ میں نے کسی درویشانہ مزاج رکھنے والے عامل کے ذریعے ڈاکٹر صاحب کے سَرِیع± الحَرکَت ذہن میں نقب لگا کر انہیں ایک دن کیلئے دھرنا موخر کرنے کی استدعا کرنے کا سوچا مگر بدقسمتی کہ ا±س دن ڈاکٹر صاحب کا ذہن کچھ مافوق الفطرت عاملوں اور طلسماتی قوتوں کے حصار میں ہونے کی وجہ سے قابلِ رسائی نہیں رہا تھا۔ وہ خود بھی عالمِ خوابیدگی میں مَسنَد نَشِینی کی ریہرسل کے دوران دَخل دَر مَعق±ولات کے حق میں نہ تھے۔ سونے پہ سہاگہ، وہ یہ مقدس مشن عمران خان سے مل کر پایہءتکمیل تک پہنچانا چاہ رہے تھے۔ یعنی مستقبل میں دو متضاد سوچوں نے سوئی کے نکے (سوراخ) سے گزر کر شراروں کی شکل میں ڈھلنا تھا۔
1983 میں علامہ صاحب لا کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں پروفیسر ہوا کرتے تھے۔ ہوسٹل میں میرا دوست جو کہ قانون کا طالب علم تھا، میرے پاس آیا اور علامہ صاحب کا درس قرآن سننے کی دعوت دی۔ ا±س زمانے میں دو ٹی وی پروگرام طلباءکی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ ایک انڈین گانوں پر مشتمل پروگرام چتر ہار اور دوسرا طاہر القادری صاحب کا درس قرآن۔ ہوسٹل کے کامن روم میں سیٹیں پر ہونے کی وجہ سے ہم نے ایک گھنٹے پر محیط یہ پروگرام کھڑے ہو کر دیکھا۔ اِس دوران تھکان یا اکتاہٹ کا ذرہ برابر احساس نہ ہوا۔
جوں جوں میں لاہور کی جانب بڑھ رہا تھا توں توں لانگ مارچ کیخلاف حکومت کے روایتی اقدامات دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو رہا تھا۔ کہیں کہیں سے تو سڑک ہی 'غائب' کردی گئی تھی اور جا بجا کنٹینر کھڑے کرکے اسے بند کیا ہوا تھا۔ ڈرائیونگ کرتے ہوئے جگہ جگہ کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے بعد پٹرول پمپوں پر لگی لمبی قطاروں پر نظر محوِ رقص ہوتی رہی۔ اِن نامساعد حالات میں واپسی کے بارے میں سوچتے ہوئے، ہوائی اڈے پر میری ہوائیاں ا±ڑ رہی تھیں۔ چنانچہ ہم نے بیٹی اور نواسی کو ساتھ بٹھایا اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر واپسی کی راہ لی۔ راوی پل سے پہلے ہی رکاوٹوں اور بے ہنگم رش نے ہمارا استقبال کیا۔ جیسے تیسے گوجرانوالہ کراس کیا، تو آگے حالات مزید دگرگوں نظر آئے۔ انجانے خوف کی پیش بندی کے پیش نظر پٹرول پمپ اور ہوٹل بند کئے جا رہے تھے۔ ون وے کا تکلف برطرف ہو چکا تھا اور لوگ اپنی مرضی کی سڑک پر ایک دوسرے کی اندھی پیروی میں گاڑیاں دوڑاتے ہوئے اپنا دل اور پٹرول جلا رہے تھے۔ آگے کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ دیکھ کر حسرت و یاس کے عالم میں واپس مڑتے اور پھر دوسری سڑک پر چڑھ دوڑتے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ڈرائیونگ ڈے منایا جا رہا ہو۔
گجرات کی حدود میں داخل ہوئے تو کچھوے کی رفتار سے رینگتی ٹریفک میں مجھے کسی پولیس افسر کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی لگانے کا موقع مل گیا۔ دریائے چناب پر جب ا±س گاڑی کے لئے رکاوٹیں ہٹائی گئیں تو میں نے بھی پل عبور کر لیا اور اِس گاڑی کے پیچھے نامناسب اور پر خطر فاصلہ رکھتے ہوئے چلتا رہا۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ اِس گاڑی نے یو ٹرن لیا تو وقت کی سوئیاں پھر روایتی ڈگر پر چلنے لگیں۔ رکاوٹوں کی وجہ سے سرائے عالمگیر سے پہلے ٹریفک دیہی علاقے کی طرف جانے والی کسی انجان سڑک پر مڑ رہی تھی۔ اوروں کی تقلید میں، ہم بھی اس ہیئت بدلتی سڑک پر چل دئیے۔ ہم زمانہءقدیم کے بھٹکے ہوئے مسافروں کی طرح نامعلوم راہوں پر سے چلتے چلاتے جب جی ٹی روڈ پر دوبارہ نمودار ہوئے اور سامنے دریائے جہلم کے آثار دیکھے تو اندیشوں بھرے دل کو یَک گ±ونہ سکون میسر آیا۔
تھک ہار کر گاڑیاں سڑک کے کنارے کھڑی کرکے آرام کرنے کے رجحان نے زور پکڑا تو آرام کرنے کی بجائے میں گاڑی کو پل کے نزدیک تر لے جانے کی کوشش کرتا رہا۔ طلوعِ صبح پر پل سے ایک چھوٹے سائز کا کنٹینر ہٹایا گیا تو وہاں سے چھوٹی گاڑیوں نے گزرنا شروع کر دیا۔ خدا خدا کرکے ہماری باری بھی آ گئی اور یوں لگا جیسے ہم نے پل عبور نہیں، فتح کیا ہو۔ دن کے اجالے میں سفر شروع ہوا تو ذہن میں یہ خیال کوندنے لگا کہ اگر ایسا نایاب انقلاب بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تو پھر کیا ہوگا؟ 
جہلم سے سوہاوہ تک کا سفر پہلے کے مقابلے میں قدرے بہتر طریقے سے طے ہوا۔ راولپنڈی کی حد شروع ہونے پر سکھ کا سانس لیا۔ رکاوٹیں بدستور وجود رکھتی تھیں مگر راولپنڈی ضلع کی جغرافیائی حدود سے واقفیت کی وجہ سے جی ٹی روڈ کی ہر بندش پر متبادل راستوں سے سفر جاری رکھا اور پانچ گھنٹے کا سفر ساڑھے بارہ گھنٹے میں طے کرنے کے بعد بالآخر گھر پہنچے تو ایک جذباتی مسلمان کی طرح اللہ کا شکر ادا کیا۔ 
 ہم تو اِس دھرنے کا ’لطف‘حالتِ سفر میں لے چکے تھے۔ مسلم لیگ ن اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ساتھ ساتھ پوری قوم بھی اِس دھرنے کا مزہ چکھ چکی ہے۔ اب تو دھرنا برپا کرنے والے اور اسکے تخلیق کار بھی انگشت بدندان عِبرَت نِگاہ بنے ہوئے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو علامہ صاحب کی علمیت اور عمران خان کی کرکٹ میں مہارت کا ایک زمانہ معتقد رہا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اگر دھرنا دینے والی یہ جوڑی سیاست کی پر خار وادی میں قدم نہ رکھتی تو ان میں سے ایک مستند عالم دین اور گَراں قَدر استاد کا اعزاز و مرتبہ حاصل کرتا اور دوسرے کا نام نامور کرکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم کے فلاحی کاموں کی وجہ سے سر گنگا رام، مدر ٹریسا، ہیلن کیلر اور ڈاکٹر رتھ فاو¿ کی فہرست میں شامل ہو کر تا ابد امر ہو جاتا۔

ای پیپر-دی نیشن