مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی اقوامِ متحدہ مسئلہ مستقل طور پر حل کرائے
فلسطینیوں کے حقوق کے لیے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کے خلاف جدوجہد کرنے والی تنظیم حماس کے اسرائیل پر کیے جانے والے تازہ میزائل حملوں نے ایک نئی جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے اسرائیل کے خلاف بڑی کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سات ہزار میزائل داغنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بھی غزہ پر بمباری کی گئی۔ بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق، حماس کے راکٹ حملوں سے اسرائیل میں ہلاکتوں کی تعداد 250 ہو گئی جبکہ 1450 اسرائیلی زخمی ہوئے۔ دوسری جانب، اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جوابی حملوں میں 232 فلسطینی شہید جبکہ 3200 زخمی ہوئے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے نہایت غیر معمولی ہے کہ گزشتہ نصف دہائی میں اس نوعیت کو ئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ پچھلی بار ناجائز اسرائیلی ریاست کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا ’یومِ کپور‘ کے موقع پر 1973ءمیں کرنا پڑا تھا۔
یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ صہیونیوں نے اسرائیل کے نام سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک غاصب ریاست قائم کررکھی ہے جس نے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے انھیں ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ صہیونیوں کی طرف سے فلسطینیوں کے حقوق پامال کیے جانے کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کئی خصوصی اجلاس ہوچکے ہیں، سلامتی کونسل میں کئی بار یہ مسئلہ زیر بحث آچکا ہے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت مختلف بین الاقوامی ادارے بارہا اس معاملے پر بات کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ پون صدی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک اس ناجائز ریاست کو ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کررہے ہیں جو مظلوم فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔ اس بار بھی غاصب اسرائیلی ریاست پر حملہ ہوتے ہی امریکا نے اس کے لیے 8 ارب ڈالر کی جنگی امداد کا اعلان کر دیا ہے، اور یہ اعلان خود امریکی صدر جوزف بائیڈن نے کیا ہے۔
اپنے بیان میں صدر بائیڈن ہمیشہ کی طرح ناجائز اسرائیلی ریاست کے اقدامات سے متعلق کچھ نہیں کہا، بس حماس کی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہماری انتظامیہ کی حمایت مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کا دفاع جاری رکھیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسرائیل کے شہریوں کو جو مدد درکار ہو گی وہ فراہم کریں گے۔ حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اس واقعے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکا حماس کے حملوں کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے اور اسرائیلیوں کے جانی نقصان پر افسوس ہے۔ امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن، مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان اور قومی سلامتی کونسل کے کوآرڈینیٹر برائے تزویراتی مواصلات جان کربی نے اپنے اپنے اسرائیلی ہم منصبوں سے رابطہ کر کے انھیں امریکا کی حمایت کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔
امریکا ہر موقع پر غاصب اسرائیلی ریاست کی مدد کر کے اس کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے، لہٰذا اس بار اس کی طرف سے جو کچھ کیا جارہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یورپی ممالک بھی اس صورتحال پر جس ردعمل کا اظہار کررہے ہیں ان سے اس کے علاوہ اور کوئی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ اب اصل امتحان مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کا ہے کہ وہ اس صورتحال میں فلسطین اور اس کے مظلوم شہریوں کی حمایت کے لیے کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت نے مشرقِ وسطی میں نئی صورتحال پیدا ہونے کے بعد ایران، عراق اور اردن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انھیں اسرائیل کے لیے راستہ فراہم کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد بیت المقدس کی فتح ہے۔ ہم فلسطین جانے کے لیے تیار ہیں۔ افغان طالبان نے کیا ہے کہ اگر اسرائیل کے ہمسایہ مسلم ممالک ہمیں گزرنے کا حق دیں تو ہم بیت المقدس کو فتح کر لیں گے۔
مسلم ممالک کی جانب سے اب تک جو ردعمل سامنے آیا ہے اس میں ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے مشیر رحیم صفوی نے کہا ہے کہ ہم فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی تک فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ادھر، مصر اور ترکی نے صورتحال کے سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے تحمل اختیار کرنے پر زور دیا ہے جبکہ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطین کی غیر معمولی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور فریقین سے تشدد اور لڑائی کو فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قطر نے صورتحال کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ ایک بیان میں قطری وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدہ صورتحال اور تشددکا ذمہ دار صرف اسرائیل ہے، حالیہ کشیدگی میں فریقین سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں عمان نے بین الاقوامی برادری سے عالمی قوانین کے تحت کشیدگی رکوانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تشدد سے دل شکستہ ہے۔ حالیہ واقعات مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ہم شہریوں کے تحفظ اور تحمل پر زور دیتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن و ریاستی حل میں موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1967ءسے پہلے والی سرحدوں کے مطابق قابل عمل خود مختار ریاست فلسطین قائم ہونی چاہیے۔ ادھر، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم مشرقِ وسطیٰ میں ابھرتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی صورتحال کی انسانی قیمت پر تشویش ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ جامع اور دیرپا حل کا اعادہ کرتا ہے۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ 1967ءسے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک قابل عمل، خود مختار اور ملحقہ ریاست فلسطین قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود روزِ اول ہی سے عالمی امن کے لیے خطرہ رہا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے غاصب صہیونیوں کی حمایت کر کے مشرقِ وسطیٰ میں اس ناجائز ریاست کی شکل میں ایک ایسے مسئلہ کی بنیاد ڈالی جس کو مستقل طور پر حل کیے عالمی سطح پر قیامِ امن ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ مسلم ممالک کے حکمران اگر کچھ مصلحتوں کا شکار ہو بھی جائیں تو وہاں کے عوام کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کریں کہ غاصب صہیونی قبلہ¿ اول پر قابض ہوں۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے ورنہ ناجائز اسرائیلی ریاست اور غاصب صہیونیوں کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے اقدامات کسی ایسی صورتحال کو جنم دے سکتے ہیں جو عالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے اور ایسی صورت میں معاملات کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔