ملک ڈوب رہا ہے سیاستدان الیکشن مہم چلا رہے ہیں: مولانا فضل الرحمن
نجانے کیوں یکدم مولانا فضل الرحمن کو ملکی معیشت سے اتنی ہمدردی کیوں ہو گئی ہے۔ ان کا یہ بیان چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ وہ اس وقت الیکشن سے فرار کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ مگر ان کے سابقہ اتحادی اور دیگر جماعتیں الیکشن کو تمام مسائل کا حل قرار دیتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی والے تو چاہتے ہیں ابھی الیکشن ہو جائیں۔ شاید انہیں یقین ہے کہ اگر جلد الیکشن ہوئے تو وہ جیت جائیں گے۔ کیونک مہنگائی نے عوام کو نکو نک کر دیا ہے۔ ایسا ہی کچھ خیال پی ٹی آئی والوں کا ہے مگر وہ مہنگائی کے ساتھ اپنے چیئرمین کی گرفتاری بھی کیش کرانا چاہتے ہیں مگر لگتا ہے ان کا یہ چیک باﺅنس نہ ہو جائے کیونکہ سیاسی صورتحال کافی بدل چکی ہے۔ مسلم لیگ (نون) والے جب بھی ہوں الیکشن خیریت سے ہوں والے فارمولے کو سینے سے لگائے منتظر ہیں کہ کب نواز شریف آتے ہیں اور ان کی موج حوادث کا شکار کشتی کو پار لگاتے ہیں۔ مگر جانتے وہ بھی ہیں کیا ہو رہا ہے۔ عوام کتنے بددل ہیں۔ اس صورتحال میں سب دعوے کر رہے ہیں کہ ہم آتے ہی عوام کی تقدیر اور حالات بدل دیں گے۔ مگر لوگ جانتے ہے ایسا ہو نہیں سکتا۔ مگر پھر بھی وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہے۔
اب شاید ایسی ہی صورتحال کو دیکھتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کہہ رہے ہیں کہ سب جماعتوں کو الیکشن کی پڑی ہے کسی کو ملک کی معاشی تباہ شدہ صورتحال کی فکر نہیں ہے۔ ان کا اب فلسفہ یہ ہے کہ پہلے ملک کی معاشی صورت حال بہتر بنائی جائے جو ضروری ہے پھر الیکشن کرائے جائیں۔ جو حالات چل رہے ہیں واقعی اگر مولانا کے اس فارمولے کو حمایت حاصل ہو گئی لوگ معاشی بدحالی دور کرو کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے تو مولانا کو پذیرائی مل سکتی ہے۔ کیونکہ اس وقت تمام تر دعوﺅں کے باوجود کسی جماعت کے پاس ایسا کوئی جادوئی چراغ نہیں ہے جس کے رگڑتے ہی ملک کے معاشی مسائل حل ہوں۔ ویسے بات یہ بھی بڑے مزے کی مولانا نے کی ہے کہ مخالف امیدوار قید ہو تو مقابلے کا تقریروں کا مزہ نہیں آتا۔ جتنی آزادی ہمیں ہے باقی باقی سب کو بھی ملنی چاہیے۔ اب معلوم نہیں یہ بیان ”میں اپنے شکت کی آواز ہوں“ ہے یا واقعی مولانا ہار جیت سے قطع نظر کھل کر مقابلے کے حق میں ہیں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان مہاجرین کو نہ نکالے جو اپنی مرضی سے آنا چاہتا ہے آئے۔ افغان ترجمان
یہ عجیب منطق ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ افغان مہاجرین کو گزشتہ 40 برس سے ہم مہمان بنا کر اس کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ اب ہماری برداشت جواب دے گئی ہے۔ اس لیے ہم ان سے عرض کر رہے ہیں کہ جناب محترم مہمانان گرامی اب افغانستان میں امن قائم ہو چکا ہے۔ وہاں سے غیر ملکی افواج اور غیر ملکی کٹھ پتلی حکمران جا چکے ہیں وہاں طالبان نے حکومت سنبھال لی ہے۔ اس لیے اب آپ لوگ بھی اپنے وطن کو سدھاریں۔ مہمان داری کرتے کرتے ہماری کمر دوہری ہو گئی ہے۔ مگر ہماری اس بات پر کسی نے توجہ نہیں دی تو بالآخر ہمیں اپنے گھر کی حفاظت کے لیے اس کو شکست و ریخت سے بچانے کے لیے ان کی واپسی کا شیڈول جاری کرنا پڑا تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ اس پر افغان حکومت کا سیخ پا ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایک دو لاکھ بھی ہوتے تو بات ہوتی یہ پورے 17 لاکھ غیر قانونی تارکین کا معاملہ ہے۔ ان کو ہر صورت یہاں سے جانا ہو گا۔ یہ لوگ ناجائز طور پر یہاں آئے ہیں اور یہاں ناجائز کاروبار اور کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ باقی 30 لاکھ کے قریب مہاجر تو ابھی تک قانونی طریقے سے موجود ہیں۔ انہیں بھی آہستہ آہستہ شہروں دیہات سے نکال کر سرحدی کیمپوں میں رکھنا چاہیے تاکہ وہ اطمینان سے اپنے وطن مالوف واپس جا سکیں اور بدمزگی نہ ہو۔
افغان حکومت کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ان مہاجرین کو ایسے نہ نکالے۔ اپنی مرضی سے جو آنا چاہتے ہیں ان کو آنے دے۔ یہ کیا بات ہوئی۔ یہاں مفت میں گھر بار بنانے کاروبار کرنے والے بھلا ایک اجڑے دیار میں خوشی سے کیوں جائیں گے جہاں طالبان کی مرضی کے بغیر سانس بھی کوئی نہیں لے سکتا۔ یہاں تو یہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتے ہیں جہاں چاہے رہتے ہیں۔ یہ عیاشیاں ان مہاجرین کو اپنے وطن میں کہاں ملیں گی۔ جو جا رہے ہیں وہ اس وقت اس لیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں اب مہنگائی بہت ہو گئی ہے تو ٹھیک یہ سب واپس افغانستان جائیں جہاں دودھ و شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس بھوکے ننگے مہنگے ملک میں کیوں رہنا۔ آخر ایران میں بھی افغان مہاجر گئے تھے اب دیکھ لیں وہ مہاجر کیمپوں میں رہے اور اب واپس جا چکے ہیں یا انہیں بھیج دیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے دریا دل ملک سے تو یہ کبھی واپس جانا نہیں چاہیں گے۔
٭٭٭٭٭
الیکشن مہم سے نواز شریف ، شہباز شریف اور زرداری کو خارج کر دیا جائے: اعجاز الحق
سابق آمر ضیاءالحق کے صاحبزادے اپنی یک رکنی تانگہ پارٹی کے سربراہ ہیں شاید اسی لیے ان کے دماغ میں ایسے ایسے خیالات آتے ہیں۔ حیرت ہے اگر عمر رسیدگی کی وجہ سے انہوں نے نواز، شہباز اور زرداری کو سیاست سے آﺅٹ کرنے کا مشورہ دیا ہے تو فارمولا یا طریقہ واردات خود ان پر ان کے سابق حلیف جن سے وہ آج کل اعلان لاتعلقی کر چکے ہیں یعنی اڈیالہ جیل کے قیدی پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کے سراج الحق پر بھی اور مولانا فضل الرحمن بھی اس سے بچ نہیں سکتے۔ کیونکہ یہ سب ستر بہترے ہیں۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود کو نوجوانوں کا قائد کہے۔ یا جوانی دیوانی زندہ باد کے نعرے لگائے۔ یادش بخیر خود اعجاز الحق کے والد گرامی کی دعائیں بھی نواز شریف کے ساتھ ہیں جن کو انہوں نے اپنی عمر لگ جانے کی دعا دی تھی جو کام آ رہی ہے۔ ایک آپ ہیں ان کو بھی سیاست سے فارغ کرنے کے مشورے دیتے پھرتے ہیں۔ اس وقت اعجاز الحق اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت سب ساٹھ باٹھ یا سترے بہترے کے پیٹے میں داخل ، جنہوں نوجوانوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔ جو نوجوان سیاستدان ہیں ان کے پاس شعور اور تجربے کی کمی ہے۔ انہیں بھی پرانے کھلاڑی چلا رہے ہیں۔ یہ سب موروثی سیاست کا وبال ہے۔ اگر تمام سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہوتی تو آج بڑے بڑے باکمال نوجوان سیاسی میدان میں پنجہ آزمائی کے لیے موجود ہوتے۔ نیا خون سیاست کی رگوں میں دوڑ رہا ہوتا مگر افسوس ہر پارٹی کا رہنما تاحیات اس عہدے سے چمٹا رہنا چاہتا ہے اور اپنے بعد پارٹی اپنے پسماندگان اور لواحقین کے سپرد کرنا چاہتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی اب کہیں یہ بھیڑ چال موجود ہو مگر ہماری سیاست میں یہ بڑے طمطراق سے جاری ہے۔ یہ دیکھ کر اور بھی دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے عوام بھی اس نظام سے بیزار نہیں آتے۔ اس سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے
٭٭٭٭٭
مودی کی عرب دوستی کا پول کھل گیا۔ اسرائیل پر حملے کی شدید مذمت
فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل کیخلاف کارروائی پر جس تیزی کے ساتھ مودی نے پینترا بدلا اور عرب ممالک سے دوستی کا نقاب اتار کر ایک ہی سانس میں اسرائیل کی حمایت اور فلسطینی حملے کی مذمت کی اس پر خود بھارتی عوام بھی حیران ہوں گے۔ آج تک علامتی طور پر ہی سہی بھارت نے ہمیشہ فلسطینیوں کو یہی دھوکہ دیا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ناوابستہ تحریک میں بھی یہی بھارت ناٹک رنگ جمائے رہا۔ مگر اب دیکھ لیں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جو خود ایک جنونی مسلم دشمن جماعت کا سربراہ اور ایسے ہی اسلام دشمن جماعتوں کا حمایت یافتہ ہے۔ اپنا اصل چہرہ دکھا دیا۔ کیا اس کے بعد بھی ہمارے مسلم حکمرانوں اور عرب ممالک کو احساس نہیں ہو گا کہ وہ بھارت سے سیاسی، سفارتی، معاشی و صنعتی تعلقات و تجارت بڑھا کر بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ بھارت عرب و مسلم ممالک سے حاصل شدہ کمائی اور دولت اسلام کو ہی مٹانے پر خرچ کرتا ہے۔ مگر شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ مسلم امہ بھارت کے اس مکروہ کردار پر سوال اٹھائیں۔
خود نریندر مودی کے ہاتھ بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ وہ کس منہ سے فلسطینیوں کی حمایت کرے گا جو مظلوم ہیں۔ مودی نے کرنی ہی جارح اسرائیل کی حمایت کرے ہے جس کے ہاتھ فلسطینی مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کچھ تبدیلی کے ساتھ ”قاتل کو ملے قاتل کر کر لمبے ہاتھ“ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی یعنی غلاموں کی تو بات چھوڑیں۔ وہ تو اپنے ناجائز اولاد کی حمایت کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس کو پال پوس کر اس طرح عالمی غنڈا بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ انہی ممالک کا ہے جو ایک طرف انسانی حقوق احترام آدمیت کی ڈفلی بجاتے ہیں دوسری طرف انسانوں کے مذہب اور وطن کے نام پر قتل عام کی بھرپور حمایت بھی کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭