حضور ﷺ کا حسن ِ کلام
حضور نبی اکرم ﷺ کا حسن کلام بھی تمام دنیا سے اعلی تھا۔ جب آپ کلام فرماتے تھے تو سننے والوں کا دل کرتا تھا کہ آپ کلام فرماتے رہیں اور وہ سنتے رہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : ” اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خلقی کے ساتھ ) نیکی کی بات کہنا “۔ (سورة البقرة )۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ اس انداز سے گفتگو فرماتے کہ اگر کوئی شخص (الفاظ ) گننا چاہتا تو با آسانی گن سکتا تھا۔ ( متفق علیہ )۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ تمہاری مانند تیز ی سے گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ آپ اس طرح کلام فرماتے کہ درمیان میں وقفہ ہوتا تھا اور پاس بیٹھ کر سننے والا شخص صرف سن کر یا د کر لیتا تھا۔ (ترمذی ، ابو داﺅد)۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بات کو تین مرتبہ دہراتے تا کہ (آپ کو) سننے والے اسے اچھی طرح سمجھ لیں۔ اور جب کسی قوم کے پاس تشریف لے جاتے اور انہیں سلام کرتے تو تین دفعہ سلام کیا کرتے۔ (بخاری شریف )۔
حضرت ابراہیم بن محمد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی ہاتھ والے اور سب سے زیادہ کشادہ دل والے تھے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ خوش گفتار تھے ، سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے زیادہ با عزت معاشرت والے تھے۔ آپ کو اچانک دیکھنے والا مرعوب ہو جا تا اور آپ کو پہچان کر آپ کے ساتھ میل ملاپ رکھنے والا آپ سے محبت کرنے لگتا۔ میں نے آپ جیسا حسین نہ آپ سے پہلے دیکھا (سنا ) اور نہ آپکے بعد دیکھا (سنا)۔ ( ترمذی )۔
ایک روایت میں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺ بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے ، آپ طویل سکوت فرمانے والے (یعنی خاموش طبع) تھے۔ آپ کا کلام کرنے کا آغاز اور اس کا اختتام واضح ہوتا۔ حضور کا کلا م مقدس مختصر مگر جامع الفاظ پر مشتمل ہوتا ، نیز کلمات میں باہم فاصلہ ہوتا ، الفاظ نہ ضرورت سے زیادہ ہوتے اور نہ اتنے مختصر کہ بات ہی واضح نہ ہو۔ آپ کا کلام نہ درشت ہوتا اور نہ حقارت آمیز۔ حضرت عبد اللہ بن عباس بیان فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے سامنے والے دندان مبارک قدرے کشادہ تھے۔ جب آپ گفتگو فرماتے تو یوں نظر آتا جیسے آپ کے سامنے والے دندان مبارک سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔ ( ترمذی )