حماس کا اسرائیل کو بڑا سرپرائز
حماس حریت پسند تنظیم ہے جس کا قیام 1987ئ میں عمل میں آیا - یہ عسکری تنظیم فلسطین کی آزادی کے لیے جدو جہد کر رہی ہے- اسرائیل نے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنی طاقت کے نشے میں جس ڈھٹائی کے ساتھ فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کیا اس سے پوری دنیا آگاہ ہے- امریکہ آغاز سے ہی اسرائیل کی حمایت اور سرپرستی کرتا رہا ہے اور اسے مڈل ایسٹ میں اپنے قومی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے- گویا اسرائیل مشرق وسطی میں امریکہ کا تھانیدار ہے- فلسطینی اور اسرائیلی دو ریاستوں کے قیام کے سلسلے میں پوری دنیا متفق ہے- اسرائیل اس حل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی پالیسی پر گامزن ہے- انسانی تاریخ کا اصول ہے کہ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے- اسرائیل کے مسلسل ظلم و ستم اور جبرو تشدد کے ردعمل کے طور پر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق حریت پسند تنظیم حماس نے اسرائیلی علاقوں پر اچانک بڑا حملہ کرکے نہ صرف اسرائیل بلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے-
اس حملے نے اسرائیل کے دفاعی اور انٹیلیجنس نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کر دیا ہے- حماس کئی مہینوں سے اس حملے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی مگر اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کو بروقت اس حملے کا علم نہ ہو سکا اور وہ حفاظتی انتظامات نہ کر سکیں- حماس نے اس حملے میں پانچ ہزار راکٹوں کی برسات کی جن سے اسرائیل کے سیکورٹی کے ادارے بوکھلا کر رہ گئے- حماس کے مجاہدین نے غزہ پٹی پر اسرائیلی رکاوٹوں کو آسانی سے عبور کر لیا اور اسرائیل کے 23 مقامات پر حملے کیے- حماس نے زمینی اور فضائی حملوں کے علاو¿ہ بحری حملے بھی کیے اور کشتیوں میں سوار ہو کر اسرائیلی علاقوں میں گھسنے میں کامیاب ہوگئے- حماس کے مجاہدین نے سینکڑوں اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو اغوا کر لیا ہے- اس حملے میں اسرائیلی فوج کا سینئر کمانڈر بھی ہلاک ہوا ہے- اسرائیل نے حماس کے حملے کے دن کو بلیک ڈے قرار دیتے ہوئے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے- حماس کے حملے کے بعد اسرائیل غزہ پر بے دریغ حملے کر رہا ہے-تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک 1100 اسرائیلی ہلاک اور 2000 زخمی ہوچکے ہیں- جان بحق ہونے والوں میں امریکی اور روسی شہری بھی شامل ہیں- اس جنگ میں 700 فلسطینی جان بحق اور3800 زخمی ہوئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں-
دنیا کے مختلف ملکوں نے محتاط الفاظ میں اس جنگ کی مذمت کی ہے جس میں دونوں جانب کے شہری جان بحق ہو رہے ہیں- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اس جنگ کو روکنے سے قاصر رہا ہے- عالمی رائے عامہ اسرائیل کو ظالم اور غاصب اور فلسطینیوں کو مظلوم قرار دے رہی ہے- پاکستان کا موقف فلسطین کے حوالے سے بڑا واضح رہا ہے- قائد اعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ نے 1933ءسے 1946ء تک فلسطین کے حق میں 18 قرار دادیں منظور کیں- ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ءمیں پاکستان میں کامیاب اسلامی کانفرنس کرائی جس میں پی ایل او کو فلسطین کی نمائندگی کے لیے شرکت کی دعوت دی- پاکستان کو اپنے اصولی تاریخی موقف پر ثابت قدم رہنا چاہیے اور فلسطین کی کھل کر سیاسی اور اخلاقی مدد کرنی چاہیے - فلسطین اور کشمیر عالم اسلام کے بڑے اہم انسانی اور دینی مسئلے ہیں جن کے لیے لاکھوں فلسطینی اور کشمیری اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں- ان کو آزادی کا پیدائشی حق ملنا چاہیے - پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے توانا آواز بلند کرنی چاہیے -
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلیجنس کے سینئر افسر نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے حماس کے بارے میں غلط اندازہ لگایا - اسرائیل کا خیال تھا کہ حماس تشدد کی پالیسی کو ترک کرکے فلسطینی علاقوں میں فلاحی کاموں میں مصروف ہے اور اب یہ تنظیم تشدد کی جانب نہیں آئے گی-لبنان کی تنظیم حزب اللہ نے بھی اسرائیلی چوکیوں پر حملے کیے ہیں- مصر اور دیگر ملکوں میں اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے- اسرائیل نے اگر طاقت کے نشے سے باہر نکل کر دو ریاستوں کے قیام کے اصولی موقف کو تسلیم نہ کیا تو اسے جلد یا بدیر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا - اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے اگر غزہ کے فلسطینیوں کو بجلی پانی اور خوراک سے محروم کیا گیا تو دونوں جانب کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہو گا-
امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طلبہ کی 31 تنظیموں نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کی غیر انسانی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کے شہریوں کو تشدد کا نشانہ بننا پڑا -اقوام متحدہ عالمی امن کے قیام کا ادارہ ہے اسے بہتر سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین اور اسرائیل میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں اور فلسطین کو اس کا جائز اور قانونی حق دلانا چاہیے-