بدھ‘ 24 ربیع الاول 1445ھ ‘ 11 اکتوبر 2023ئ
سندھ کو پاکستان سے واپس چھین لیا جائے۔ آدتیہ ناتھ کی بونگیاں
اترپردیش کا یہ ڈھونگی وزیر اعلیٰ ویسے ہی مسلم دشمنی میں پہلے سے ہی پاگل ہے۔ پاکستان کے خلاف اس کی بکواس بھی جاری رہتی ہے۔ کبھی مسلمانوں کو بھارت سے مٹانے کی بونگیاں مارتا ہے اور کبھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی باتیں کرتا ہے۔ ایسے ذہنی مفلوج اور فاتر العقل شخص کو وزیر اعلیٰ بنایا بھی انہی منفی جذبات اور بیانات کے لیے ہے۔ جن سے بھارت کے انتہا پسند جنونی ہندو توا کے حامی اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خوش ہوتے ہیں۔ ورنہ جنونی بھارتیوں کے چاہنے یا نا چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ 1947ءمیں انگریزوں کے ساتھ مل کر ہندوﺅں نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ مسلم نیشلسٹ رہنما بھی ان کے ہمنوا بن گئے مگر اس کے باوجود کوئی کچھ نہ کر سکا اور پاکستان بن گیا۔ یہ ایسا زخم تھا جو آج بھی بھارت کے حکمران نہیں بھولے نہ قوم پرست رہنما جو کانگریس کے حامی تھے۔ آج تک وہ یہ زخم چاٹتے ہیں اور کبھی پشتونستان، کبھی سندھو دیش کبھی آزاد بلوچستان کے مردہ نعروں میں جان ڈالنے کے لیے گلے پھاڑ پھاڑ کر بے ہنگم آوازیں نکالتے ہیں۔
انہی زخم چاٹنے والوں میں یہ آدتیہ ناتھ یوگی بھی شامل ہے جو اترپردیش کا وزیر اعلیٰ ہے اور گیروے رنگ کی دھوتی اور کرتا پہن کر خود کو سب سے بڑا ہندو توا کا حامی تصور کرتا ہے۔ سندھ آج سے نہیں سب سے پہلے برصغیر کا پہلا خطہ بنا جہاں 13 سو سال قبل اسلام کا نور پھیلا اور یہ خطہ سندھو سے دارالسلام بنا اسی لیے سندھ کو باب السلام بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ سے ان 13سو سالوں کتنا پانی گزر چکا ہے۔ سندھیوں کی کتنی نسلیں اسلام کے دامن میں سما چکی ہیں۔ اس کا اندازہ شاید آدتیہ ناتھ کو نہیں۔ خود اس کے اپنے صوبے اتر پردیش میں کروڑوں مسلمان آباد ہیں۔ آدتیہ ناتھ کو نتھ ڈالنے کیلئے وہی کافی ہیں اس لیے وہ فی الحال سندھ کو واپس لینے والی بے تکی باتوں سے اجتناب ہی کریں تو بہتر ہے۔ اس جیسے کئی ڈرامہ باز آئے اور چلے گئے آئندہ بھی جاتے رہیں گے اور سندھ یونہی پاکستان کے پہلو میں بسے دل کی طرح رہے گا۔ بقول شاعر
”دھرکن ہے پنجاب اگر دل اپنا مہران ہے“
سورج ہے سرحد کی زمین چاند بلوچستان ہے
میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے
٭٭٭٭٭
فلسطین اسرائیل جنگ پر مغرب کی منافقت سامنے آ گئی
کل تک جو لوگ گزشتہ ایک سال سے یوکرائن پر روسی حملے کے غم میں خون کے آنسو بہاتے نظر آتے تھے۔ جن کی زبانیں روس کی مخالفت کرتے نہیں تھکتی تھیں۔ وہ جنہوں نے اپنے خزانے یوکرائن کے لیے کھول دئیے تھے ‘جن کے اسلحہ کے ذخائر یوکرائن کی فوج کے لیے وقف ہو گئے تھے۔ آج وہ فلسطین کے خلاف زبان درازیاں کر رہے ہیں۔ اسرائیل کو دنیا کا سب سے مظلوم ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا یہ صرف اس لیے ہے کہ یوکرائن ایک مسیحی اکثریتی ریاست ہے اور فلسطین ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ مذہب کی بنیاد پر یہ تقسیم ہی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ کشمیر ہو یا فلسطین صرف اس لیے حل طلب مسئلے ہیں کہ وہاں مسلمان آباد ہیں۔ مغرب صرف عیسائی ریاستوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ باقی دنیا جائے بھاڑ میں۔ مشرقی تیمور ہو یا دارفر صرف اس لیے ان کو فوری علیحدگی یا آزادی دلوائی گئی کہ وہ عیسائی اکثریتی صوبے تھے۔ اب فلسطینیوں کی عسکری تنظیم حماس نے اگر تنگ آمد بجنگ آمد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر مظالم خاص طور پر بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ بڑھتے ہوئے مظالم پر اسرائیل کو سبق سکھایا ہے تو اس پر مغربی اقوام کو تلملانے کی کیا ضرورت وہ بھی اتنی شدید کے تمام حدیں پار کر کے اسرائیل کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے اعلانات کئے گئے۔
یہ ہے مغربی ممالک کے دل میں انسانی حقوق اور ہمدردی کی حقیقت اسرائیل کے وحشی وزیر دفاع نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرتے ہوئے وہاں پانی بجلی اور خوراک کی بندش کر کے جو قیامت برپا کی ہے اس پر یورپی ممالک کا ضمیر کیوں نہیں جاگتا۔ یہ پاگل وحشی وزیر فلسطینیوں کو جانور کہتا ہے جبکہ عملی طور پر خود یہ ایک وحشی جانور بن چکا ہے۔ اسرائیل کے ارد گرد مصر، اردن ، لبنان و دیگر عرب ممالک کی سرحدیں ہیں اگر وہ سب مل کر جنگ میں نہ سہی محصور فلسطینیوں کو خوراک ، پانی ادویات اور اسرائیلی بمباری سے تباہ حال شہروں میں ریڈ کراس یا ہلال احمر کے ذریعے خیمے کمبل فراہم کریں تو یہی ان کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اسرائیل کی مدد کے لیے امریکی بحری بیڑہ اگر تیزی سے آ سکتا ہے تو فلسطینیوں کی مدد کے لیے مسلم ممالک کی امداد کیوں نہیں جا سکتی۔
٭٭٭٭٭
چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے جیل کی دیوار توڑ کر بیرک بڑی کرنے کا حکم
یہ ہوتی ہے رعایت یہ ہوتا ہے خصوصی سلوک۔ اب بھی اگر خان یا ان کے وکلا اور حامی یہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو یہ سراسر غلط بیانی ہو گی۔ اس وقت ہزاروں قیدی جیلوں میں قید ہیں۔ وہ سب اپنے اپنے گھر والوں کے چاند ستارے ہیں۔ آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کے دل کا چین ہیں۔ مگر کیا انہیں اس قسم کی معمولی سی بھی رعایت حاصل ہوتی ہے۔ کیا صرف خان جی کا ہی دل چاہتا کہ انہیں ٹہلنے کی یا ورزش کی جگہ بھی میسر ہو۔ باقی جو جیل کی کھولی نما کہہ لیں یا ڈربے نما بیرکوں میں بند پڑے لوگ ہیں کیا وہ انسان نہیں ان کا بھی ایسی سہولتوں کے لیے جی نہیں للچاتا۔ عجیب بات ہے یہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے لوگوں کی باہر ہوں تو تب بھی مزے اندر ہوں تو تب بھی عیش میں رہتے ہیں۔ اب عدالت کا یہی فیصلہ دیکھ لیں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جیل میں بیرک کی دیوار توڑ کر ان کے کمرے کو مزید 60 یا 70 فٹ بڑا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ موصوف دیسی گھی میں تلے ہوئے مرغ و مٹن کھانے کے بعد اسے ہضم کرنے کے لیے ٹہل سکیں۔ اس کے باوجود وقفے وقفے سے یہ بیان بھی جاری ہوتا ہے کہ وہ اٹک جیل میں خوش تھے۔ یہاں اڈیالہ میں انہیں مزہ نہیں آ رہا۔ وہاں ہر سہولت تھی یہاں کچھ بھی نہیں۔ واہ رے واہ قید نہ ہوئی سیرو تفریح کا پروگرام ہو گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو لوگ قید میں عام قیدیوں سی قید برداشت نہیں کر سکتے۔ رعائتیں چاہتے ہیں وہ بھلا ان قیدیوں کے حالات سے مسائل سے باخبر کیسے ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
سوشل میڈیا پر کرکٹ ٹیم کے حوالے سے منفی مہم
سوشل میڈیا والوں کو تو کوئی نہ کوئی کہانی چاہیے ہوتی ہے مرچ مصالحہ لگا کر پیش کرنے کے لیے۔ سو وہ یہ کام بخوبی سرانجام دے رہا ہے۔ اب وہ ایک پیر شف شف چھو کو ہی لے لیں جو پھونکیں مار کر جنوں کو بھگانے معذور کو ٹھیک بیماروں کو تندرست کرنے کی ایسی فلم چلاتے ہیں کہ توہمات کے مارے ہزاروں لوگ اسے سچا سمجھنے لگے ہیں۔ یوں اب اگر اسے اسی کرامات کی بدولت حکومت خود ہائیر کرے اور ہر ماہ کسی نہ کسی ایک صوبے میں لاعلاج بیماریوں میں مبتلا افراد معذوروں اور آسیب کا شکار افراد کے علاج کے لیے اس کی ڈیوٹی لگائے تو بہت جلد اچھا ہو گا۔ لیکن اگر اس کی پھونک سے اندھے دیکھنے، لنگڑے چلنے اور گونگے بولنے نہ لگیں تو اس پیر کو اندھا ، لنگڑا اور گونگا بنا کر نشان عبرت بنا دیا جائے۔ کیسے کیسے ڈھونگی مہاراج اس جدید دور میں ہمارے سادہ لوح عوام کو لوٹتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور کہانی جو سوشل میڈیا پر چل رہی ہے یا جان بوجھ کر چلوائی جا رہی ہے وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے حوالے سے ہے کہ ٹیم میں گروپ بندی ہے یا آپس کے اختلافات بڑھ گئے ہیں۔ خدا نہ کرے ایسا ہو اس وقت جب کرکٹ ٹیم بھارت جیسے مخالف ملک میں عالمی کرکٹ مقابلے میں شرکت کے لیے گئی ہے یہ باتیں پھیلانے والے کھلاڑیوں کا مورال گرانا چاہتے ہیں۔ کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہیے۔ اس میں اتار چڑھاﺅ آتا رہتا ہے۔ ہر کھلاڑی کا اپنا مزاج ہے۔ ذرا ذرا سی بات کا بتنگڑ بنانا لگتا ہے سوشل میڈیا والوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس طرح ایک ویڈیو میں دکھایا جا رہا ہے کہ ایک کھلاڑی کی اہلیہ بھارت میچ دیکھنے پہنچ گئی ہیں اور دوسری طرف بتایا جا رہا ہے پی سی بی کے چیئرمین ذکا اشرف کو بھی ابھی تک انڈیا کا ویزہ نہیں ملا۔ وہ حیران و پریشان انتظار میں ہیں تو پھر یہ بیگم صاحبہ کس طرح انڈیا پہنچ گئی میچ دیکھنے۔ ابھی تک تو انڈیا شائقین کو بھی ویزے جاری نہیں کر رہا۔ الغرض ایسی کئی باتوں کی وجہ سے سوشل میڈیا کی اچھی خبریں بھی دب جاتی ہیں اور پراپیگنڈا بازی لے جاتا۔