جنرل اسمبلی میں نگران وزیراعظم کا خطاب!
اقوام ِ عالم سال میں ایک مرتبہ یواین او کے سائے میں اپنا اجلاسِ عام منعقد کرتی ہیں، جس میں شریک ہوکرپوری دنیا کے سربراہان ِ مملکت و حکومت اپنا اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔تمام عالمی مسائل پر ایک کھلا مباحثہ ہوتا ہے۔ تنازع کشمیر کی وجہ سے پاکستانی وزیراعظم کی طرف تمام دنیا کی آنکھیں جمی ہوتی ہیں۔ کشمیر کے تنازع کو 75برس گذرگئے ، سلامتی کونسل نے اس پر کئی قراردادیں بھی منظور کیں، استصوابِ رائے کا بھی فیصلہ دیا گیا، لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ مسئلہ پیچیدہ تر ہوتا چلاگیا ہے۔ جناب انوارالحق کاکڑ نئے نئے حکومت میں آئے ہیں ، ان کے پاس نگران وزیراعظم کا منصب ہے، انہیں حکومت اور سفارت کا کوئی زیادہ تجربہ بھی نہیں ، لیکن سینیٹ آف پاکستان میں وہ کھل کر اظہار ِ رائے کرتے رہے ہیں اور اپنی تقریروں کے جوہر دکھلاچکے ہیں۔ وہ نیویارک کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو پاکستانی اور کشمیری عوام کی دعائیں ان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے جنرل اسمبلی میں ایک منجھے ہوئے سیاسی مدبر کی طرح خطاب کیا۔ پاکستانی عوام ان کی تقریر سن کر عش عش کر اٹھے، کیونکہ انہوں نے اپنے خطاب میں ایک گونج دار لب و لہجہ استعمال کیا اور کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر عالمی مسائل کا تجزیہ پیش کیا۔ کشمیر کا مسئلہ ان کی تقریر کا بنیادی نکتہ تھا۔ انہوں نے انسانی حقوق کی پامالی کے ضمن میں بھارت کا پردہ چاک کیا۔
وزیراعظم انوارالحق نے خاص طور پر 5اگست 2019ءکو بھارت کی طرف سے جموںو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے پر سخت احتجاج کیا۔ نگران وزیراعظم نے اقوام عالم کو بتایا کہ بھارتی فاشزم نے کشمیریوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ بھارت نے جموں و کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بناکر رکھ دیا ہے ، جہاں گلی گلی ، محلے محلے میں کرفیو نافذ ہے اور بھارتی غاصب فوجی ہرموڑ پر نہتے کشمیریوں پر سنگینیں تانیں کھڑے ہیں۔ بیرونی دنیا سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کے تمام زمینی وفضائی وٹیلی فونک رابطے ختم کئے جاچکے ہیں، جس کی وجہ سے بھارت کے بدترین مظالم کی خبریں باہر نہیں آتیں۔ نہ بیرونی دنیا میں کسی کو یہ پتہ چلتا ہے کہ سرچ آپریشن کی آڑ میں عقوبت خانوں میں پہنچادیا گیا ہے ، اور کتنی ہی مظلوم کشمیری خواتین کی عصمتیں لوٹی جاچکی ہیں۔تمام کشمیری رہنما نظر بند ہیں۔ یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان کے خلاف جعلی مقدمے چلاکر انہیں بے بنیاد الزامات پر سنگین سزائیں سنائی جارہی ہیں۔
نگران وزیراعظم نے واضح کیا کہ کشمیر پر بھارتی جبر و استبداد کی وجہ سے علاقائی امن کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ کنٹرول لائن اور سیاچن میں جنگ کا عالم ہے۔ بھارت اور پاکستان کشمیر کی وجہ سے روایتی ہتھیاروں سے کئی جنگیں لڑچکے ہیں۔مگر اب دونوں ممالک جوہری اسلحے اور میزائلوں سے لیس ہیں۔ خدانخواستہ اب طبل ِ جنگ بجا تو کئی ارب انسان فنا کے گھاٹ اتر سکتے ہیں۔ اس خطرے کی سنگینی کے پیش نظر اقوام متحدہ کا فرض ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ اپنی ہی منظورکردہ قراردادوں کی روشنی میں پرامن طور پر حل کروائے۔
ماحولیات کے مسئلے نے ساری دنیا کو یک دم جکڑ لیا ہے۔ موسم میں گرمی شدت پکڑ رہی ہے ، جس کی وجہ سے بڑے بڑے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ طوفانی اور بے موسمی بارشوں کے سبب سیلاب کی تباہی نازل ہوتی ہے۔ وزیراعظم کاکڑ نے اقوام ِ عالم کو ایک دفعہ پھر یاد دلایا کہ گذشتہ برس پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں آیا تھا اور ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوب گیا۔ کھڑی فصلیں اور باغات تباہ ہوگئے۔ ریلوے اورپبلک انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔عالمی برادری نے پاکستان کی عالمی امداد کے لئے وعدے تو بہت کئے، لیکن انہیں پورا نہیں کیا جارہا۔ جس کی وجہ سے سیلاب زدگان سنگین خطرات سے دوچار ہیں۔ اس سال بھی دریائے ستلج نے پاکستان کے وسیع علاقوں میں تباہی مچائی ہے۔ یہ لوگ بھی ابھی تک امداد اور گھروں کی تعمیر کے منتظر ہیں۔ عالمی برادری بے حسی کا مظاہرہ نہ کرے۔ موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا ایک فیصد بھی کردار نہیں ہے۔ یہ ساری قیامت ترقی یافتہ ممالک سے نازل ہوتی ہے۔ اس لئے ان کا فر ض بنتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں تباہی کا شکار ہونے والوں کی کھل کر مدد کرے۔
فلسطین کا مسئلہ بھی انسانیت کے لئے ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ نگران وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے پورے کرے۔ کشمیر کے مسئلے پر دنیا نے سنگین بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ جس کی وجہ سے چند روز قبل فلسطینی عوام اور اسرائیل فوج میں تباہ کن جنگ چھڑی۔ اسرائیلی جنگ نے ماضی کی طرح ایک بار پھر اس مرتبہ بھی درندگی کا مظاہرہ کیا۔ فلسطینی عوام بے بسی کی تصویر بنے ہوئے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں شرکت کے باعث وزیر اعظم کاکڑ کو کئی عالمی رہنما?ں سے ون ٹو ون ملاقات کا موقع ملا۔ ان ملاقاتوں میں تجدیدِ تعلقات میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ترکیہ ، سعودی عرب ، امارات اور چین کے اعلیٰ سطحی نمائندوں سے وزیراعظم کاکڑ کی ملاقاتوں نے دو طرفہ خوشگوار فضا کو جنم دیا۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا پہلا دورہ امریکہ انتہائی کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دورے پر خرچ ہونے والی ایک ایک پائی سے پاکستان بے بہا فوائد سے بہرہ مند ہواہے۔