• news

سب سے بڑا آپریشن

 ہر ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بقا اور بہتری کے لیے اقدامات کرے۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے متعدد آپریشن کیے جن میں کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن یہ مسلسل عمل ہے جس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی۔ جس ملک کی سرحدیں جتنی محفوظ ہوں گی اس کے اندرونی معاملات اتنے ہی بہتر ہوں گے۔
 پاکستان پچھلے چالیس سال سے بین الاقوامی سیاست کا مرکزی کردار رہا ہے۔ جہاد افغانستان سے لے کر دہشتگردی کی جنگ تک پاکستان اس دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ جہاد افغانستان کے نام پر افغان معاملات میں پاکستان کے کردار نے پاکستان کو اتنی بری طرح متاثر کیا ہے کہ ہم جان چھڑوانا چاہتے ہیں لیکن کمبل ہماری جان ہی نہیں چھوڑ رہا۔ ہم نے افغان معاملات میں اور امریکہ کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اتنی قربانیاں دی ہیں کہ اتنی قربانیاں قیام پاکستان کے وقت نہیں دی گئی ہوں گی۔ ہم نے ایک لاکھ سے زائد انسانی جانوں کی قربانی دی ہے۔ ہم نے اپنی معیشت تباہ کر لی ہے۔ ہم نے اپنی معاشرت تباہ کر ڈالی ہے۔ آج پاکستان کو جتنے بھی مسائل درپیش ہیں ان کی جڑیں کسی نہ کسی طور پر افغانستان سے ملتی ہیں۔
 پاکستان میں کلاشنکوف کلچر سے لے کر نشہ اور جرائم تک۔ تجارت ،سمگلنگ سے لے کر تاوان اور بھتہ خوری تک۔ مذہبی منافرت سے لے کر دہشتگردی تک۔ ہر معاملے میں افغان امور شامل ہیں۔ ہم نے افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کیلئے اپنا پیٹ کاٹ کر آہنی باڑ بھی لگائی لیکن مداخلت مکمل طور پر ختم نہ کر سکے۔ نہ ہم افغانیوں کو اپنا ہمنوا بنا سکے اور نہ ہم ان کی کارروائیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ 1979ء سے آج تک پاکستان افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ سوئے ہوئے بچے کا منہ چومنا نہ ماں پر احسان نہ باپ پر۔ پاکستان کو نہ عالمی سطح پر افغان مہاجرین کو سنبھالنے کا صلہ ملا ہے نہ افغانستان ہمارے کردار کو تسلیم کرتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ آج پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہے جو کسی صورت بھی پاکستان سے جانے کے لیے تیار نہیں۔ انھوں نے پاکستان میں رشتہ داریاں قائم کر لی ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد پاکستان میں کاروبار کر رہی ہے۔ بےشمار افغانیوں نے ناجائز طریقوں سے پاکستان کی شہریت بھی حاصل کر رکھی ہے۔ یہاں جائیدادیں بنا لی ہیں اور پاکستان کے معاملات پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان نے کبھی ان معاملات پر توجہ نہ دی بلکہ ایک وقت ایسا بھی رہا ہے جب پاکستان غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے لیے جنت بنا ہوا تھا۔ بغیر ویزوں کے بےشمار امریکی اور یورپین پاکستان میں آتے رہے۔ 
دنیا بھر سے جہادی عناصر بھی پاکستان میں براجمان رہے اور ان سب کی آڑ میں را، موساد اور دیگر کئی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کردار بھی دندناتے پھرتے رہے۔ پاکستان ان معاملات پر بےبسی کی تصویر بنا رہا۔ موجودہ حکومت بلکہ اسٹیبلشمنٹ نے پہلی بار اسے ٹیک اپ کیا ہے اور ناجائز طریقوں سے پاکستان میں رہنے والے غیر ملکی لوگوں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یکم نومبر تک ایسے تمام لوگوں کوڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ یقینی طور پر یہ آپریشن پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن ہو گا۔ اگر ہم سکریننگ کرکے غیرملکیوں کو پاکستان سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے تو بہت سارے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ہر شہری کا ڈیجیٹل ریکارڈ رکھا جائے۔ جو بچہ سکول داخل ہونے جائے جو ملازمت کے لیے اپلائی کرے جو جائیداد گاڑیوں کی خریدوفروخت کرے ہر ایک کے فنگر پرنٹ لے کر اس کا ریکارڈ محفوظ کر لیا جائے تاکہ غیرملکی ایجنٹوں کو دندنانے کی کھلی چھٹی نہ مل سکے۔
 اسی طریقے سے سرحدوں پر ہونے والی غیر قانونی تجارت اور انسانی سمگلنگ کو روکا جائے۔ ان رجسٹرڈ کاروبار بند کیے جائیں۔ کاروبار کی رجسٹریشن میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ بلا شبہ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے جو پاکستان پر انحصار کرتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان سے تمام تر اشیاءسمگل ہو کر افغانستان پہنچ جائیں۔ افغانستان کے ساتھ قانونی تجارت کو فروغ دیا جائے تو صرف افغانستان کی جائز تجارت سے ہماری معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔ غضب خدا کا؛ حالت یہ تھی کہ انڈوں اور ڈبل روٹی سے لے کر آٹا اور دالوں اور گوشت تک ہر چیز غیر قانونی طریقے سے سمگل ہو کر نہ صرف افغانستان جا رہی تھی بلکہ روس کی متعدد ریاستوں تک پاکستانی مال پہنچایا جا رہا تھا۔ پاکستان سے بہت بڑی تعداد میں ڈالر روزانہ کی بنیاد پر افغانستان شفٹ کیے جا رہے تھے۔
 یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کی ایک چوتھائی کرنسی افغانیوں کے پاس ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی تھوڑی سی توجہ سے بہت بڑی تبدیلی آچکی ہے آج پاکستان میں ڈالر قابو میں آتا جا رہا ہےاور کاروباری حالات میں استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ میں نے کل ہی اخبارات میں دو کمپنیوں کی جانب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کے اشتہار دیکھے ہیں۔ یہاں بہت بڑے بڑے سوالات بھی سر اٹھا رہے ہیں کہ یہ سارا کچھ پہلے کیوں نہ کیا گیا۔ مجرمانہ غفلت کے ذمہ دار کون ہیں، پاکستان کو اس حالت تک پہنچانے کے ذمہ دار کون لوگ ہیں، کن کن لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں، کیا ان لوگوں کے خلاف بھی کبھی کوئی کارروائی ہو گی۔ کیا یہ کارروائیاں بھی وقتی ہوں گی یا ہم نے مستقل بنیادوں پر معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی روڈ میپ بنا لیا ہے۔
٭....٭....٭

ای پیپر-دی نیشن