جمعرات‘25 ربیع الاول 1445ھ ‘ 12 اکتوبر 2023ئ
پاکستان دوسری مرتبہ 20وھیل چیئر ایشیا کپ کرکٹ کا چمپئن بن گیا۔ورلڈ کپ میں بھی سری لنکا کو ہرا دیا
معذوروں افراد کی کرکٹ ٹیم نے جس طرح یک طرفہ مقابلے کے بعد سری لنکا کی ٹیم کو 103 رنز سے شکست دی وہ قابل تعریف و تحسین ہے۔ اس طرح ایشیاءکپ وھیل چیئر 20 کا تاج ایک بار پاکستان کے سر سج گیا۔ پوری قوم اپنے ان باہمت کھلاڑیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ اس سے ہماری ورلڈ کپ کرکٹ کھیلنے کے لیے بھارت جانے والے کرکٹروں کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں ہم نے اللہ کے بھروسے پر تمام تر صلاحیتیں استعمال کر کے کھیلنا ہے۔ ہار جیت بعد کی بات ہے جب تک ہم جان توڑ محنت کر کے مقابلہ نہیں کرتے ہمیں خود پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب کھلاڑی اپنے اپنے کھیل پر توجہ دیں اپنے اپنے جوہر دکھائیں تو واقعی پاکستانی ٹیم اپنی ہر فیلڈ میں نمبر ون کی پوزیشن برقرار رکھ سکتی ہے اور بھارت میں ورلڈ کپ جیت سکتی ہے۔ یہ ایک ایسی فتح ہو گی جو مدتوں یاد رہے گی اور پاکستانیوں کا لہو گرماتی رہے گی۔ ورلڈ کپ کے میچ میں گزشتہ روز جس طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم نے سری لنکا کے خلاف اپنا جاندار میچ کھیلا جو شاندار پرفارمنس دی وہ سب کے سامنے ہے۔ بے شک ہمارے بلے بازوں نے ہماری لاج رکھ لی رضوان اورسعود نے سنچریاں بنا کر افتخار نے جارحانہ اننگ کھیل کر، پہاڑ جیسا اونچا سکور سر کر لیا۔یوں یہ سنسنی خیز میچ جیت لیا۔۔
آئی ایم ایف کا یوٹیلٹی سٹورز سمیت متعدد اداروں کی نجکاری کا مطالبہ
ویسے بھی رہ کیا گیا ہے۔ ہر چیز کی ہم آئی ایم ایف کے مطالبے پر یا اس کے کہے بغیر نجکاری کر رہے ہیں۔ اونے پونے داموں فروخت کر رہے ہیں۔ اب پھر وہ دباﺅ ڈال رہا ہے کہ غریبوں کو تھوڑی بہت رعایت دینے والے اداروں بشمول یوٹیلٹی سٹورز کی بھی نجکاری کی جائے۔ یعنی غریبوں کو جو 5 یا دس روپے کی تھوڑی بہت رعایتی اشیائے خورد و نوش ملتی ہیں وہ بھی اب ان سے چھین لی جائیں۔ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ حکومت ازخود آئی ایم ایف کی ہدایت سے پہلے ہی اشیائے تعیش پر ٹیکس لگائے۔ اشیائے خورد و نوش تو ضروریات زندگی میں آتی ہیں۔ ان کو مہنگا کرنا ظلم ہو گا۔ نجکاری کے بعد خریدنے والے کون سے عوام دوست ہوں گے جو انہیں رعایت دیں وہ تو 2+2 کو 4 نہیں 2 اور 2 کو 22 بنا کر اپنا کھاتہ کھولیں گے۔ اس لیے حکومت یوٹیلٹی سٹورز جیسے اداروں کی نجکاری کی بجائے ان کو وسعت دیں تاکہ وہ منافع بخش ادارے بن کر آئی ایم ایف کی نظربد سے محفوظ رہ سکیں۔ ملک بھر میں ان کی جتنی زیادہ پرانچیں ہوں گی اتنا ہی ان کی آمدنی بڑھے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ یہ غریب صارفین کی پہنچ میں ہوں اور ان میں موجود اشیا خالص اور بہتر کوالٹی کی ہوں۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ بھی ہے کہ امیر لوگ بھی لنڈے میں جا کر کپڑے ، جوتے، پرس، کوٹ ، پینٹ وغیرہ خریدتے اور یوٹیلٹی سٹورز میں خریداری کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے حالانکہ یہ متوسط اور غریب لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ کوئی نسلی اعلیٰ خاندانی نہیں سب نو دولتیے ہیں۔ اعلیٰ خاندانی کبھی چھوٹے لوگوں کے حق نہیں مارتے۔
میرا لیڈر نواز شریف ہے، مریم یا شہباز نہیں، الیکشن نہیں لڑوں گا۔ شاہد خاقان عباسی
لگ تو پہلے سے ہی رہا تھا کہ عباسی صاحب کا پارہ کافی ہائی ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم بھی رہے ہیں شاید اس وجہ سے وہ خود کو مسلم لیگ (نون) کا رہنما بھی تصور کرنے لگے تھے۔ مگر اب وہ جس بیانئے کے ساتھ سامنے آئے ہیں اس سے تو اب ان کا مرکزی رہنماﺅں والی فہرست میں بھی نام شامل نہیں ہو گا۔ اس لیے انہوں نے خود ہی ایک ہی سانس میں یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اب وہ الیکشن نہیں لڑیں گے۔ ہاں البتہ مسلم لیگ (نون) چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اب ویسے بھی وہ جائیں تو جائیں کہاں۔
پی ٹی آئی پر برا وقت آیا ہوا ہے۔استحکام پاکستان پارٹی میں ان کی گنجائش شاید نہیں نکلے گی۔ پی ٹی آئی (پرویز خٹک گروپ) کو ان کی ضرورت نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی والوں کو بھی انہیں قبول کرنے میں تامل ہو گا۔ لے دے کر شاید جماعت اسلامی ہی ان پر غور کر سکتی ہے۔ ویسے سب جانتے ہیں کہ ہمارے جو سیاستدان اپنی پارٹیاں چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں گئے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ سوائے تحریک استقلال کے جسے یہ شرف حاصل ہے اور رہے گا کہ وہاں اول تو اصغر خان کے سوا کوئی لیڈر نہیں تھا جو تھے وہ جب وہاں سے نکلے تو کامیاب سیاستدان ہی نہیں رہنما بن کر ابھرے۔ نوازشریف اسکی زندہ مثال ہیں۔ شاہد خاقان عباسی خود ہی سوچیں جب ان کے لیڈر نواز شریف ہی مریم اور شہباز کو اپنے بعد جماعت کا اثاثہ خیال کرتے ہیں تو کسی کو کیا کہ اس پر اعتراض کرے۔ اس طرح تو ان کا اپنا لیڈر بھی ناراض ہو سکتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ میاں جی جس سے روٹھ جائیں پھر جلد اس سے راضی نہیں ہوتے۔ جبکہ شہباز شریف پھر بھی دل بڑا کر لیتے ہیں اور سب کو گلے لگا لیتے ہیں۔ رہی بات مریم کی تو وہ ابھی تک بظاہر شاہد خاقان عباسی کی عزت ہی کرتی ہیں۔ آگے خدا جانے حقیقت کیا ہے۔
امریکی بحری بیڑہ اسرائیل کے قریب پہنچ گیا
اب امریکی بحری بیڑے کی کہانیوں میں وہ بات نہیں رہی کہ لوگ اس پر غور کریں اور اسے اپنی مدد تصور کرتے ہوئے خوشی محسوس کریں یا اس کے رعب میں آکر خوفزدہ ہوں۔ 1971ءمیں ہمیں بھی اس کا تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ جب بھارت نے روس کے بل بوتے پر مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرنے کی پلاننگ کے تحت جنگ مسلط کی تو جواب میں ہمارے اتحادی امریکہ نے بھی مشرقی پاکستان کی خراب حالت دیکھ کر ہماری مدد کے لیے اپنا ساتواں بحری بیڑہ روانہ کیا تھا مگر دیکھ لیں پاکستان دولخت ہو گیا مگر وہ امریکی تباہ کن بحری بیڑہ پاکستان کی سرحد تک نہیں پہنچ سکا۔ پھر حال ہی میں چین، ایران اور روس نے امریکی بحری بیڑوں کی ناکہ بندیوں اور سمندر میں گشت کا خوف زائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور کھلم کھلا امریکی دھمکیوں اور اس کے تباہ کن بحری بیڑوں کی موجودگی کے باوجود سمندری راستوں پر ان ممالک نے اپنی عملداری قائم رکھی۔ اب چونکہ اسرائیل کا معاملہ ہے اور یہ امریکہ کی لے پالک ریاست ہے۔ اس لیے دو تین روز میں ہی امریکی بحری بیڑہ اسرائیل کی مدد کے لیے پہنچ چکا ہے۔
دیکھتے ہیں یہ کیا گل کھلاتا ہے۔ اب ان بحری بیڑوں کی حیثیت راجہ پورس کے ہاتھیوں کی سی ہو گئی ہے۔ ان سے کوئی نہیں ڈرتا۔ روس نے بھی سیاسی ہی سہی یہ بیان ضرور دیا ہے کہ جس طرح امریکہ اسرائیل کی مدد کر رہا ہے ہم بھی فلسطین کی مدد کر سکتے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو کم از کم اس طرح اسرائیل فلسطینیوں پر جاری مظالم اور غزہ پر تاریخ کی بدترین بمباری ہی ختم کر دے۔ ورنہ اسرائیلی بمباری سے لاکھوں فلسطینی بے گھر، سینکڑوں شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ مغربی ممالک اور عالمی برادری اس وحشیانہ قتل عام پر خاموش ہے اور اسرائیل کے آنسو پونچھنے میں مصروف ہے اور کچھ نہیں تو مسلم ممالک ہی اس مسئلہ پر کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں اور فلسطینیوں کی نسل کشی روک کر اسلامی اخوة کا حق ادا کریں۔ ورنہ فلسطین کے بعد کہیں کسی دوسرے عرب ملک کی باری نہ آ جائے۔