سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے چیئرمین پی ٹی آئی کی سکیورٹی کے حوالے سے رپورٹ طلب
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ وقائع نگار) اسلام آباد انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی، اسد عمر وغیرہ کے خلاف جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ، الیکشن کمیشن احتجاج کیس میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے چیئرمین پی ٹی آئی کی سکیورٹی کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران اسد عمر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے اسد عمر کو حاضری لگا کر جانے کی اجازت دے دی۔ دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل جان محمد اور پراسیکیوٹر راجا نوید بھی عدالت پیش ہوئے۔ وکیل صفائی جان محمد نے چیئرمین پی ٹی آئی کے عدالت پروڈکشن کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اِن کیسز میں ضمانت پر ہیں، جیل ٹرائل نہیں ہو سکتا، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جیل سے کورٹ لانے کے انتظامات کو دیکھا جائے، ملزم کو عدالت پیش کرنا پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس بابر ستارپر مشتمل ڈویژن بنچ نے توشہ خانہ نیب تحقیقات اور 190 ملین پاو¿نڈ کرپشن کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی عدم پیروی پر احتساب عدالت کی جانب سے ضمانتیں مسترد کرنے کے خلاف متفرق درخواست میں کہا ہے کہ درخواستوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ گذشتہ روز چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سے بچنے کے لیے دائر متفرق درخواست پر اعتراضات کے ساتھ سماعت کے دوران وکیل سردار لطیف عدالت میں پیش ہوئے اور کہاکہ ہماری ہر درخواست پر اعتراض عائد ہوجاتا ہے۔ اسلام آباد احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی عدالت نے سابق خاتون اول بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ اور 190 ملین پاﺅنڈ سکینڈل ریفرنسز میں نیب کی جانب سے گرفتار کیے جانے سے قبل آگاہ کرنے کے معاملہ پر درخواست کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے نمٹا دیا۔ اسلام آباد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو چالان کے نقول فراہم کرنے کی 9 اکتوبر کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا۔ جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی جانب سے جاری 4 صفحات پر مشتمل اڈیالہ جیل میں سماعت کے تحریری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو چالان کے نقول فراہم کرنے کے لیے سماعت مقرر کی گئی تھی، عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو کمرہ عدالت میں چالان کے نقول فراہم کرنے کے لیے لانے کی ہدایت کی۔ پی ٹی آئی وکلا ٹرائل کورٹ کی سماعت کو روکنے کے لیے کوئی عدالتی حکم سامنے نہیں لا سکے۔