سائفر کیس، ٹرائل روکنے، فرد جرم کیخلاف درخواستیں اخراج مقدمہ کی استدعا کے ساتھ یکجا
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس کا ٹرائل روکنے اور فرد جرم عائد کرنے کے ٹرائل کورٹ فیصلہ کے خلاف درخواست کو سائفر کیس کے اخراج مقدمہ کی درخواست کے ساتھ یکجا کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان درخواستوں کو سائفر کیس کے اخراج کی درخواست کے ساتھ لگانے کے احکامات جاری کردوں گا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاکہ سائفر کیس ٹرائل کورٹ میں کارروائی روکنے اور فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست ہے، معاملہ ہائیکورٹ میں چل رہا ہے۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ 17 اکتوبر کو بڑی بدمزگی ہونی ہے، ٹرائل چل رہا ہے فرد جرم عائد ہونی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں دیکھ لیتا ہوں اور اس پر آرڈر بھی کر دوں گا۔ سترہ اکتوبر سے پہلے لگا دوں گا کیس۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے حکم کے خلاف اور نقول فراہم کرنے سے متعلق کیس میں کہا ہے کہ رولز دیکھ کر آرڈر کردیں گے۔ جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں زیر سماعت سائفر کیس میں وکلاءکے دلائل مکمل ہو گئے، سپیشل پراسیکیوٹر کے دلائل جاری رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جیل سماعت کے خلاف درخواست پر فیصلہ کل یا پیر کو آ جائے گا۔ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت ان کیسز کو اکٹھا کرکے ہی سن لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ضمانت کا کیس الگ ہے، اس کو الگ ہی سنا جانا ہے، ٹرائل کے حوالے سے کوئی سٹے آرڈر موجود نہیں، ٹرائل کورٹ نے ٹرائل اپنے لحاظ سے چلانا ہے۔ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ٹرائل کو چلنے نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے تھے؟۔ جس پر سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے بتایا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے میٹنگ منٹس نہیں، صرف پریس ریلیز سامنے آئی تھی، اس موقع پر نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی پریس ریلیز عدالت کے سامنے پڑھی گئی اور وکیل نے کہاکہ میں صرف ضمانت کے کیس پر دلائل دے رہا ہوں کہ یہ مزید انکوائری کا کیس ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا کابینہ کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ کے سامنے تھے؟ جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے کہاکہ کابینہ کے میٹنگ منٹس بھی کلاسیفائیڈ ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کے سامنے بھی پریس ریلیز ہی تھیں۔ چیف جسٹس نے سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی سے کہا کہ آپ شروع کریں سوا چار بجے تک، پھر آئندہ دلائل ہوں گے۔ جس کے بعد سپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سروس میں جو بھی ہو گا اس پر اس ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، قانون کے پرانے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا عمل نہیں ہو گا، 1960 میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو آرمی ایکٹ کا حصہ بنا دیا گیا، اگر وہ چاہیں تو فوجی عدالتوں میں بھی ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کوئی وزیر اعظم، صدر، گورنر آتے ہیں کیا پوری زندگی وہ آفیشل کو ظاہر نہیں کر سکتے؟، جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے کہاکہ بالکل پوری زندگی وہ ڈسکلوز نہیں کر سکتے، یہ ایسا ڈاکومنٹ ہے جس کو آپ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے وہ وایس جانا ہے، یہ سیکریٹ ڈاکومنٹ تھا ڈی کلاسیفائیڈ بھی نہیں ہوا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چالان کے ساتھ جو ڈاکومنٹ ہیں کیا سائفر کی کاپی اس کے ساتھ منسلک ہے، جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے بتایاکہ چالان کے ساتھ سائفر کی کاپی نہیں لگ سکتی، گواہوں کے بیانات بھی ہیں، وزارت خارجہ سے متعلق بھی گواہ ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نہ کوڈڈ نہ ہی ڈی کوڈڈ سائفر چالان کا حصہ ہے۔ جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے بتایاکہ سیکریٹ ہونے کی وجہ سے اس کو چالان کے ساتھ منسلک کر نہیں سکتے۔ وکیل نے کہاکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں دو گیٹگریز ہیں ایک قابل ضمانت دوسری ناقابل ضمانت ہیں۔