پی آئی اے کی پروازیں منسوخ، گورنر کے پی کے ہیلی کاپٹر میں اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی!!!
چند روز گذرے ہیں ایک سیاسی جماعت کے رہنما میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ انہوں نے ریاست بچائی اور سیاست کو قربان کیا یعنی انہوں نے ریاست کے وسیع تر مفاد میں سیاست کو قربان کیا۔ حالانکہ حقائق ان کے اس بیان کے برعکس ہیں۔ کیونکہ ڈالر ان سے قابو نہیں ہوا اور مہنگائی پر وہ قابو پانے میں بھی ناکام رہے۔ ملک کے اہم مسائل کے حوالے سے ان کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ ان حالات میں اگر وہ صرف سیاست نہیں ریاست بچانے والے بیانیے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں تو حقائق اس کے برعکس ہیں۔ کیونکہ نگراں حکومت ایک منتخب حکومت سے زیادہ بہتر کام کر رہی ہے۔ اگر حالات کو دیکھا جائے تو میاں شہباز شریف کے ساتھ تو ملک بھر سے منتخب نمائندے شامل تھے لیکن وہ اتنا کامیاب نہیں ہو سکے۔ منتخب حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ کہ کر سکی لیکن نگراں حکومت اس حوالے سے عوام کے لیے سہولیات پیدا کر رہی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی دیکھنے میں آئے ہے ویسے تو بنیادی ضروری اشیاءکی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے لیکن ابھی بہت طویل سفر باقی ہے۔ جتنی مہنگائی گذرے چند برسوں میں ہوئی ہے اس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہ تو بھلا ہو اس نگراں حکومت کا جو عام آدمی کی مشکلات اور تکلیف کا احساس کرتے ہوئے سیاست کے بجائے پاکستان کے شہریوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ جو تباہی میاں شہباز شریف، آصف علی زرداری اور ان کے سیاسی دوستوں نے کی ہے یا پھر ان سے پہلے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی نااہلی نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے ان حالات میں کوئی بھی حکومت ہو وہ ایک طرف سہولت دے گی تو دوسری طرف سے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہی کچھ ان دنوں بھی ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی میدان کے کھلاڑی اپنی ہر ناکامی کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے اور ہر معاملے میں ریاست کے فائدے کا بیانیہ بنانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی تو کر دی لیکن گیس کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ یعنی گرمیوں میں بجلی زیادہ استعمال ہوتی ہے تو بجلی مہنگی کرو اور سردیوں میں گیس کا استعمال بڑھ جاتا ہے تو گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے۔ ریاست بچانے کے نعرے لگانے والے اور جمہوریت کو بہترین انتقام کہنے والوں کو خبر ہو کہ یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ اقتصادی جائزے سے قبل گیس کی قیمت سو فیصد سے زائد بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ سوئی گیس کی قیمت نہ بڑھانے سے ایک سو پچاسی ارب روپے اور گھریلو صارفین کیلئے آر ایل این جی کی قیمتیں نہ بڑھانے سے اکیس ارب کا شارٹ فال ہو گا۔ رواں مالی سال کے دوران گیس سیکٹر کے گردشی قرضوں میں اربوں روپے کے اضافے کا خدشہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گیس سیکٹر کا مجموعی قرض لگ بھگ ستائیس سو ارب تک پینچ چکا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اس خسارے سے ناخوش ہیں۔ دوسری طرف پیٹرول کی قیمت میں چالیس روپے فی لیٹر کمی کے بعد نئی قیمت دو سو تراسی روپے تراسی پیسے فی لیٹر ہوگی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت پندرہ روپے فی لیٹر کمی کے بعد نئی قیمت تین سو تین روپے اٹھارہ پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔
پیٹرول پر فی لیٹر 60 روپے لیوی اور 22 روپے کسٹمز ڈیوٹی جب کہ ہائی سپیڈ ڈیزل پر فی لیٹر پچاس روپے لیوی اور تیئیس روپے کسٹمز ڈیوٹی برقرار ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی فائدہ نچلی سطح تک پہنچنا چاہیے۔ اگر چالیس روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان ہو تو اگلے ہی لمحے ہر چیز کی قیمت آسمانوں سے باتیں کرتی ہے اب اگر پیٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے تو اس سے جڑی تمام چیزوں کی قیمتوں میں کمی کے لیے بھی صوبائی حکومتوں کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
خبر یہ ہے کہ اپنے ملازمین کے لیے بونس کا اعلان کرنے والی پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کو پی ایس او نے واجبات کی عدم ادائیگی پر گلگ، سکھر اور ملتان ایئرپورٹ پورٹ پر فیول کی فراہمی بند کر دی ہے۔ فیول کی عدم دستیابی کی وجہ سے فلائٹ آپریشن بھی متاثر ہوا ہے۔ واجبات کی عدم ادائیگی اور فیول کی عدم فراہمی کی وجہ سے گذشتہ روز چودہ پروازیں منسوخ ہوئی ہیں۔ اب یہ حالات اس ادارے کے ہیں جس نے چند روز قبل اپنے ملازمین کے لیے بونس کا اعلان کیا تھا۔ کہ یہاں کوئی پوچھنے والا ہے کہ قرض لے کے بونس دیے جا رہے ہیں۔ فیول خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں لیکن بونس جاری کرنے ہیں۔ طیارہ اڑانے کے لیے پیسے نہیں لیکن پیسہ اڑانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ پی آئی اے کا بیڑہ غرق ایسے ہی غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ صورتحال میں کوئی تبدیلی تو نظر نہیں آتی کیونکہ جنہوں نے ٹھیک کرنا ہے وہ اجاڑنے میں لگے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور بڑی دلچسپ خبر خیبر پختون خواہ سے ہے۔ یہاں پی آئی نے بونس دیے ہیں۔ وہاں گورنر خیبر پختون خوا سرکاری ہیلی کاپٹر میں اپنے پوتوں اور دوستوں کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہی گورنر صاحب ہیں جنہوں نے سرکاری ہیلی کاپٹر کے غیر قانونی استعمال کے حوالے سے بل پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔ یعنی جہاں موقع ملے وہاں اڑانا ضرور ہے قومی خزانہ ہو یا سرکاری ہیلی کاپٹر۔تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ گورنر سرکاری ہیلی کاپٹر میں اپنے دو پوتوں او ردوست تاجر کو سوات لے گئے اور واپسی پر گورنر کے ساتھ پارٹی کا رکن اور اس کے دو بچے بھی پشاور آئے۔ یہ واقعہ بنیادی طور پر ہماری ذہنی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ حکمرانوں کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ اس انداز میں سرکاری وسائل کا استعمال عوامی سطح پر یہ تاثر چھوڑتا ہے کہ جس کے جو ہاتھ لگے وہ اڑا لے۔ کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خبر بھی سامنے آئی تھی کہ اس سے پہلے گورنر موصوف دورہ باجوڑ کے موقع پر بھی اپنے رشتہ دار بچوں کو ساتھ لے گئے تھے۔ بنیادی طور پر ہمیں اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہر شخص جائز ناجائز کے فرق کو نہیں سمجھے گا اس وقت بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔
آخر میں خورشید رضوی کا کلام
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے