• news

عارضی خوشی‘ دائمی دکھ 


کیا اس بارے میں کوئی دو رائے ہو سکتی ہے کہ کوئی ریاست اپنے آزاد اور خودمختار وجود کے ساتھ صرف اپنے آئین اور مروجہ قوانین کی عملداری و پاسداری کے ساتھ ہی برقرار رہ سکتی ہے اور اقوام عالم میں سر اٹھا کر چل سکتی ہے۔ یہ اصول تو ہٹلر جیسے آمر نے بھی اپنے ملک اور عوام کیلئے وضع کرلیا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں آزاد ہیں اور انصاف فراہم کر رہی ہیں تو پھر ہمیں کوئی بیرونی چیلنج درپیش نہیں ہو سکتا۔ ایک ہم ہیں کہ قاعدے‘ قانون‘ انصاف کی جگالی کئے جا رہے ہیں۔ آئین کو ملک کا برتر قانون مانتے ہیں‘ اسکی عملداری کے ہمہ وقت متقاضی رہتے ہیں‘ مروجہ قوانین کو ریاستی اتھارٹی کے طور پر تسلیم کرتے ہیں مگر ہم انفرادی طور پر ہی نہیں‘ ادارہ جاتی سطح پر بھی نہ آئین کی مانتے ہیں نہ قانون کی۔ اور شور اٹھائے رکھتے ہیں آئین و قانون کی عملداری کا۔ واصف علی واصف کے اس قول کی طرح کہ ”ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں‘ مگر اسکی ایک نہیں مانتے“۔ ہم بھی احکام خداوندی اور آئین و قانون تک سے سرکشی کی انتہاﺅں کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ”کھبی دکھا کر سجی مارنا“ کوئی ہم سے سیکھے۔ ایسی منفرد اور نرالی قوم دنیا میں کہیں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ 
کہنے کو ہم نے پارلیمانی جمہوری نظام کا وجود اوڑھا ہوا ہے۔ مگر ہمارے کرم فرماﺅں کے ذہنوں میں یکا و تنہاءاختیار والا خناس رچ بس گیا ہے۔ گویا مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ ہم اپنے وطن عزیز کے گزرے 75 سال کا جائزہ لیں تو بس بانی پاکستان قائداعظم سے آزادی و خودمختاری‘ آئین و قانون کی پاسداری اور جمہوریت و انصاف کی عملداری کے لقمے لینے والی قوم قیام پاکستان کے ان زریں مقاصد کے ثمرات پانے کیلئے اب تک ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہی ہے۔ وارے نیارے تو اس مجبور قوم سے نکلنے والے اشرافیاﺅں کے ہوئے ہیں جن کیلئے ملک کا قاعدہ قانون ہمیشہ موم کی ناک بنا رہا۔ پھر وہی جالب یاد آجاتے ہیں:
کہاں بدلے ہیں دن فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے 
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاﺅں ننگے ہیں بے نظیروں کے 
ساری دھونس دھانس بس راندہ درگاہ عوام پر ہی جمتی اور نکلتی اور ساری عیش کوشیاں خود ساختہ اشرافیاﺅں کا ہی مقدر ٹھہری ہیں۔ بے بس عوام کی ایسی مجبوریوں کی عکاسی میری ایک پنجابی غزل کے اس شعر میں ہوتی ہے کہ:
آپ تے پیویں بکاّں شربت
سانوں گھٹ گھٹ زہر پلاویں
بھئی مرے کو مارے شاہ مدار کا راستہ ایسے ہی تو نکلتا ہے۔ جی بھائی صاحب! 
لگنی تھیں ٹھوکریں ہی
بیٹھا جو راہ میں ہوں
راندہ درگاہ عوام کو یہی مجبوریاں تو لے بیٹھی ہیں۔ وہ عالیجاﺅں کے ہر دھوکے‘ ہر فریب‘ ہر دعوے‘ ہر وعدے‘ ہر نعرے کو اپنا مقدر بدلنے سے تعبیر کرلیتے ہیں اور ٹھوکریں کھائے چلے جارہے ہیں۔ زہر کو تریاق سمجھ کر پیتے چلے جا رہے ہیں اور ہمارے کرم فرما جس راستے پر لگاتے ہیں ہم ”آوے ای آوے“ اور ”جاوے ای جاوے“ کے نعروں کے گرداب میں خود کو الجھا لیتے ہیں۔ اور وطن عزیز کے 75 سال گزار کر بھی ہم خود کو اس کیفیت سے باہر نہیں نکال پائے کہ:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں 
آج نگرانوں نے ہمیں پٹرولیم نرخوں میں چالیس روپے تک فی لٹر کمی کا دانہ ڈالا ہے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ گویا ہمیں ہفت آسمان کی کوئی نعمتِ غیرمترقبہ مل گئی ہو۔ مگر حقیقت میں تو اس ایک دانے کی کوئی ہلکی سی تاثیر بھی نگوڑے عوام کے دامن میں نہیں آپائے گی۔ آپ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے اب تک کے چمکوں میں اس چکمے کو بھی شامل کرلیں کیونکہ مہنگائی کا سیاپا تو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ مہنگائی کے سانپ کے ڈنک سے بچنے کیلئے ایک سوراخ بند کیا جاتا ہے تو اس سے بڑے کئی اور سوراخ مہنگائی کے عفریب کا خیرمقدم کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ہم بات قاعدے قانون کی کرتے ہیں‘ سہانے خواب انصاف کی عملداری کے دیکھتے ہیں‘ سہارے ریاستی اتھارٹی کے ڈھونڈتے ہیں مگر اس سب کی پاسداری کے جس اتھارٹی سے متقاضی ہوتے ہیں وہی قاعدے قانون کو مدھولتی‘ نقب لگاتی اور تشریحات و تاویلات نکالتی نظر آتی ہے۔ بھئی! یہ قاعدہ کس نے پڑھا دیا کہ ہر پندھرواڑے پٹرولیم نرخوں کا تعین کرتے رہو۔ جب دل چاہے نرخوں میں لگاتار اور بے شمار اضافہ کرتے چلے جاﺅ۔ اس کیلئے جواز عالمی منڈی میں تیل کے بڑھتے نرخوں کا نکالو اور جب یہ عالمی نرخ کم ترین سطح پر آجائیں تو پہلے انہیں خاطر میں ہی نہ لاﺅ‘ اپنی من مانی کئے چلے جاﺅ‘ آئی ایم ایف کے بندھن اپنی مجبوری بتاﺅ‘ اپنے اشرافیائی سرکل میں سب کو کھلاﺅ‘ خود بھی کھاﺅ اور پھر چوتھے پانچویں مہینے جا کر زندہ درگور عوام کے جسموں میں زندگی کی نئی رمق دوڑانے کیلئے پٹرولیم نرخوں میں تھوڑی بہت کمی کرکے اپنے لئے داد و تحسین کے ڈونگروں کا اہتمام کراو۔ جناب قاعدے قانون کا تو یہی تقاضا ہے کہ اگر پٹرولیم نرخ بڑھنے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں سمیت ضرورت کی ہر چیز اور ادویات تک کے نرخ پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے تناسب سے بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں جو عوام کو قبرستان کی جانب دھکیلنے میں معاون بنتے ہیں تو پٹرولیم نرخوں میں کمی کے نتیجہ میں دیگر اشیاءکے نرخ بھی اسی تناسب سے کم ہو جائیں۔ مگر حکومتی انتظامی مشینری کی گورننس کی عملداری اور ریاستی رٹ کی مضبوطی کے داعیان کیا موازنہ کرکے عوام کے سامنے پیش کر سکتے ہیں کہ فلاں وقت پٹرولیم نرخوں میں اتنی کمی ہوئی تو مارکیٹوں میں دوسری اشیاءکے نرخ بھی کم سطح پر آگئے۔ ایسی قانون کی عملداری تو ہم نے نہ آج تک دیکھی نہ سنی۔ 
آج اگلے پندھرواڑے تک پٹرولیم نرخ 40 روپے لٹر تک کم ہوئے ہیں تو حکومتی ریاستی اتھارٹی کی عملداری کی بدولت کیا اسکے اثرات عوام پر مہنگائی میں ریلیف ملنے کی صورت میں مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ تو بھائی صاحب! ریاستی رٹ کا معاملہ کچھ ایسا ہی بناءہوا ہے کہ:
خود آگہی کی طلب کے قریں نہ آئے گا
یہیں نجات ہے اس کی‘ یہیں نہ آئے گا
آپ نے خوش کر دیا‘ خوشیوں کے ”جھاکے“ میں مبتلا قوم کو پٹرولیم نرخوں میں چالیس روپے کمی کا اعلان کرکے مگر اگلے پندھرواڑے کے بعد بھی یہ خوشی برقرار رہے گی یا مردہ عوام کو نرخوں میں اضافے کا دوبارہ جھٹکا لگایا جائیگا؟ اور پھر موجودہ کمی سے بھی کیا عوام کو مجموعی مہنگائی میں کوئی ہلکا سا ریلیف مل پائے گا۔ اگر روزمرہ استعمال کی تمام اشیاءکے بڑھے ہوئے نرخ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہی نظر آتے ہیں تو پھر حکومتی گورننس اور اتھارٹی کا اچار بنا کر سادہ لوح عوام کو من و سلویٰ کی صورت میں پیش کر دیا جائے۔ عوام کی زندگیوں کی تلخیاں بڑھتی دیکھ کر میں ایسا رجائیت پسند تو یقیناً نہیں بن سکتا کہ آدھے خالی گلاس کو آدھا بھرا ہوا گلاس ظاہر کروں۔ نگرانوں کی قانونی و آئینی ترتیب و ساخت کو کسی قومی مفاد کے ناطے نظرانداز بھی کر دیا جائے تو اس عہدِ ناپرساں میں بجلی کے تسلسل کے ساتھ بڑھتے ہوئے بلوں اور اسکے نتیجہ میں مسلط ہونیوالی مہنگائی در مہنگائی کو جھیلنے والے کم از کم عوام تو نگرانوں کی ایسی نگرانیاں نظرانداز نہیں کر سکیں گے۔ پھر آپ یہی جگاڑ لگا کر اپنی حکمرانی کو آگے بڑھاتے جائیں کہ نگرانوں کا عوام سے کیا لینا دینا۔ آئین اور قاعدے قانون کی بات تو اسی معاشرے میں جچتی ہے جس کے عوام اور حکمران آئین و قانون کی پاسداری اور انصاف کی عملداری کو اپنے معمولات زندگی کا حصہ بنا چکے ہوں۔

ای پیپر-دی نیشن