منگل ‘ 1445ھ ‘ 17 اکتوبر 2023ئ
بھارت سے شکست‘ پاکستان اپنی فتح حماس کے نام نہ کر سکا‘ اسرائیل کا طنزیہ ٹوئٹ
یہودی ریاست کے آفیشنل اکاﺅنٹ پر پاکستان کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار بتا رہا ہے کہ اسرائیل کو پاکستان سے کتنی چڑ ہے۔ کرکٹ میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان تھا۔ کھیل میں ایک جیتتا ہے‘ دوسرا ہارتا ہے۔ اس پر سارے بھانڈ اور میراثی ملا کر اسرائیل نے جس طرح بھارت کو مبارکباد دی اور پاکستان پر طنز کیا وہ شرمناک ہے۔ کتنا درد اور تکلیف ہے اسرائیل کو فلسطینی کی حمایت کرنے پر۔ جب رضوان نے اپنا ایوارڈ غزہ کے نام کیا تو بھارت اور اسرائیل والے تلملا اٹھے تھے۔ اب پاکستان کی شکست پر سرکاری طورپر اسرائیل پاکستان پر طنز کے نشتر چلا رہے ہے کہ پاکستان نے اپنی فتح حماس کے نام کرنے کا موقع کھو دیا۔ صرف یہی کیا بھارت نے ادنیٰ سے لیکر اعلیٰ تک سب یہی بول رہے ہیں مگر انہیں افغانستان سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ پے درپے چھوٹی ٹیموں سے ہارنے کے بعد بھی گزشتہ روز اس نے دفاعی چیمپئن انگلینڈ کو میچ میں ہرا دیا۔ کوئی بھی ٹیم کسی بھی وقت کم بیک کر سکتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس بارتو پھر بھی پہلے دو میچ پاکستان نے جیتے تھے۔ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں۔ تعصب کی بھینٹ چڑھانامناسب نہیں ہوتا۔ کیا ہی مزہ آئے کہ پاکستان بھارت میں یہ ورلڈکپ جیت کر اپنی یہ فتح فلسطنیوں کے نام کرے۔ تب اسرائیل اور بھارت میں کیسی صف ماتم بچھے گی۔ وہ سب دیکھیں گے۔ صرف ایک شکست پہ اتنا ڈھول بجانا درست نہیں کیونکہ جہاں بجتی ہے شہنائی‘ وہاں ماتم بھی ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے۔
٭٭........٭٭
نوازشریف مجرم‘ اشتہاری‘ جہاز سے جلسہ گاہ کیسے جائیں گے: خورشید شاہ
شاہ کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ساجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے۔ خورشید شاہ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماﺅں کی ناک کا بال ہیں۔ وہ ان کی منشا اور مرضی کے بغیرکوئی بیان نہیں دیتے۔ وہ جانتے ہیں پیپلزپارٹی میں من مرضی کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ ایسا بیان جو مرکزی قائدین کی گھنٹیاں بجا سکتا ہے۔ وہ بھلا شاہ جی یونہی کیسے دے سکتے ہیں۔ اب اس بیان کا وبال وہ اپنے سر لیتے ہیں یا وضاحت کر دیں گےکہ بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ یا پھر اس کی کڑواہٹ کم کرنے کیلئے زرداری یا بلاول کہہ دیں گے۔ یہ شاجی کا ذاتی بیان یہے یوں مٹی پاﺅ والی بات دہرائی جائے گی۔ ہاں البتہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت دیکھتے ہیں کیا جوابی وار کرتی ہے کیونکہ یہ تو براہ راست ان کے قائد پر حملہ ہے۔انہیں مجرم اور اشتہاری کہہ کر ان کا مان سمان گرانے یا گھٹانے کی براہ راست کوشش کی گئی ہے۔ صرف یہی نہیں‘ انہیں دوسروں کے کاندھوں پر آنے والا کہہ کر ان کی سیاسی قدوقامت کو بھی کم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اب بھلا مریم بی بی اور حمزہ شریف خاموش کیسے رہ سکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ پلٹ کر کیا جواب دیتے ہیں۔ اس وقت عجب سیاسی ماحول ہمارے ہاں پل رہا ہے۔ ہر بڑی سیاسی جماعت کا رہنما یا کافی سارے رہنما کرپشن‘ دھوکے بازی‘ قبضے اور بھتہ خوری کے الزامات کی زد میں ہے۔ کیس بھی معمولی نوعت کے نہیں اربوں روپے کے ہیں۔ گویا اس حمام الزامات میں سب ننگے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے حوصلہ دیکھیں کس طرح ایک دوسرے پر آوازے کس رہے ہیں۔ آئینہ دکھا رہے ہیں۔ عوام کا کیا‘ وہ بے چارے تو یہ سب ،دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں
٭٭........٭٭
پشاور: مراد سعید چھاپے سے قبل فرار ‘ رشتہ داروں پر پتھراﺅکا مقدمہ
اب یہ پولیس کی نااہلی ہے یا مراد سعید کی پھرتی کہ وہ پولیس کے ہاتھ آنے سے قبل ہی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے یہ ان کی بڑی کامیابی ہے کہ وہ ابھی تک پولیس کے ہتھے نہیں چڑھے ورنہ معلوم ہوتا وہ کتنے ثابت قدم ہیں۔ آجکل تو پولیس والے وہ آگ کی بھٹی بن چکے ہیں جس میں تاپ کر دیکھا جاتا ہے کہ سونا کون ہے اور تانبا کون۔ پی ٹی آئی میں جس رفتارسے لوگ آئے تھے اسی رفتارسے وہ لوگ واپس بھی جا رہے ہیں۔ کوئی اپنے پرانے ریوڑ میں نہیں گیا کیونکہ وہاں اب ان کی واپسی مشکل نظر آتی ہے۔ ہاں البتہ نئی نئی سیاسی جھیلوں پر موسمی پرندوں کی آمد جاری ہے۔ یہ سلسلہ نجانے کب تک چلے گا۔ پی ٹی آئی کے رہنماﺅں کی اکثریت جان کی امان پاﺅں تو ایک پریس کانفرنس کروں کہتے ہوئے سیاسی دیار میں اپنا اپنا مقام خود پیدا کرنے پر مائل ہو چکے ہیں۔گنتی کے چند رہنما سرکاری مہمان خانوں میں مقیم مہمانداری کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ باقی گنے چنے رہنماﺅں جن میں مراد سعید بھی شامل ہیں‘ ابنی تک چمڑی بچاتے پھر رہے ہیں۔ یہ تو خیبر پی کے پولیس کی نااہلی ہے کہ وہ ایک مطلوب و مقصود کو پانے میں ناکام ہے۔ گزشتہ روز کسی مخبری پر پولیس نے ناصر باغ میں ایک گھر پر چھاپہ مارا مگر ان کے برادر نسبتی نے مزاحمت کی۔ گھر والوں نے پتھروں سے پولیس کا استقبال کیا۔ یوں ایس پی کی قیادت میں آنے والی پولیس کچھ نہ کر سکی اور پی ٹی آئی کا یہ بہادر کھلاڑی میدان چھوڑ کر یعنی گھر کی دیواریں پھلانگ کر بھاگ گیا۔ اب پولیس نے گھروالوں پر مقدمہ درج کرکے دل ٹھنڈا کر لیا ہے‘ تاہم کہتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ کسی نہ کسی کونے کھدرے میں چھپے مراد سعید کو برآمد کر ہی لیا جائے گا، پھر دیکھتے ہیں استقامت کام آتی ہے یا پریس کانفرنس کی راہ نکلتی ہے۔
٭٭........٭٭
21 اکتوبر کے بعد ملکی سیاست کا رنگ بدل جائے گا: رانا ثناءاللہ
معلوم نہیں اس کے بعد ملک میں کونسی دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ زمین سے تیل نکل آئے گا یا گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہونگے۔ عوام کو ملکی سیاست سے زیادہ اپنی زندگی کے رنگ بدلنے کی فکرہے۔ جو ”سیاہ ست“ کی وجہ سے سیاہ رنگ میں ڈھل چکی ہے۔ زندگی دشوار تر ہو رہی ہے۔ مراعات یافتہ تو عیش کر رہے ہیں‘ غریب دووقت کی روٹی کو ترس گئے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے ان کی زندگی کے رنگوں کو پھیکا کر ڈالا ہے۔ باقی رہے سکے پھیکے رنگ بھی مہنگائی کے ہاتھوں یوں اڑ گئے ہیں جسے نور جہاں کے ہاتھ سے کبوتر اڑ گئے تھے مگر اس کے بعد تو نورجہاں کی قسمت کھل گئی تھی۔ اس کی یہی ادا جہانگیر کو بھا گئی تھی اور اس نے نورجہاں کو ملکہ ہند بنا دیا تھا۔ خدا کرے ایسا ہی پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی ہو اور ان کی بھی مقدر کی گرہ کھل جائے اور وہ بھی تنگی سے نکل کر خوشحالی کی طرف چل پڑیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو 21 اکتوبر کیا 31 دسمبر بھی آجائے تو کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی جیل سے آئے یا جہاز سے‘ جب تک عوام کی زندگی کے رنگ نہیں بدلتے کس کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسے سیاسی مداری آتے جاتے ہیں۔ اصل رہنما وہ ہوتا ہے جو عوام کو ریلیف دے۔ نگران حکومت سے کس نے پوچھنا ہے۔وہ ہی عوام پر ترس کھاتے ہوئے مراعات یافتہ طبقات کی مفت بری ختم کرے یہ مراعتوں‘ رعایتوں کے دریا کا رخ عوام کی طرف موڑنا چاہئے۔ سستی بجلی‘ سستا تیل‘ سستی اشیائے فراہم کرے ان کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیر دینا ہی نگران حکومت کا بڑا کارنامہ ہوگا جو عوام مدتوں یاد رکھیں گے۔ کوئی تو عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے‘ ان کے غموں کا مداوا کرے۔ عوام کو منتخب حکومتوں پر اب اعتبار نہیں رہا جو انہی کے ووٹ لیکر انہی کو لوٹتے ہیں۔ ان کی زندگی کے حسن رنگ چھین لیتے ہیں۔