جھوٹ کا کاروبار
جس طرح کمزور بنیادوں پر کھڑی عمارت لڑکھڑاتی رہتی ہے۔ سخت موسموں میں جان پر بنی ہوتی ہے کہ کہیں عمارت کو زیادہ نقصان نہ پہنچ جائے اسی طرح جھوٹ کے کاروبار میں کبھی بہتری نہیں آسکتی کبھی برکت نہیں آتی۔ ہم کافروں کے معاشروں کو دیکھ لیں وہ بیرونی دنیا کو ہر قسم کے چکمے دے لیتے ہیں اپنے مفادات کے لیے داو پیج بھی استعمال کر لیتے ہیں لیکن ان معاشروں میں سچ بولا جاتا ہے اور خاص کر لیڈر اور حکمرانوں کے بارے میں تو تصور نہیں کیا جاتا کہ وہ عوام کے ساتھ غلط بیانی کریں گے وہاں کے عوام اپنے لیڈروں کو اعلی اخلاق کی معراج پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی ان کے ماضی کا بھی کوئی جھوٹ سامنے آجائے تو وہ اس غلطی کو بھی معاف نہیں کرتے اور جھوٹ پکڑے جانے پر اس لیڈر کو مستعفی ہونا پڑتا ہے۔ بلکہ کئی ایک تو اپنے جھوٹ پکڑے جانے پر خودکشی کر لیتے ہیں۔ اب ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتے ہیں یہاں ابتدا ہی اس بات سے ہوتی ہے یا بے ایمانی تیرا ہی آسارہ ہے۔ آپ ذرا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابات سے قبل کیے گئے وعدوں کویاد کریں کس نے کون کون سے سبز باغ نہیں دکھائے۔ انتخابات سے قبل سب اچھے بچے بن جاتے ہیں اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے بڑھ کر عوام کا غمخوار اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ ان کے دل میں جو عوام کا درد ہے شاید اتنا درد تو ان کو پیدا کرنے والے ماں باپ کے دل میں نہیں ہوگا۔ پاوں جما کر ایسے ایسے جھوٹ بولے جاتے ہیں کہ ہتھیلی پر سرسوں جما دی جاتی ہے۔ اگر رتی برابر بھی حقیقت کا ادراک رکھنے والے سوچیں تو وہ سارے وعدے ناممکنات میں شامل ہوتے ہیں۔ وہ بے شک الٹے ہو جائیں سیدھے ہو جائیں وہ کام نہ ہو سکتے ہیں نہ ان کے کرنے کی صلاحیت اور اہلیت ہوتی ہے لیکن عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ایسی ایسی کہانیاں گھڑی جاتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے ناں کہ جب تک لالچ موجود ہے اس وقت تک فراڈیوں کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ ہمارے سیدھے سادے عوام ان خیالی پلاوں کے خواب آنکھوں میں سجائے ہربار کسی نہ کسی کے چکر میں آجاتے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ جو پینتیس پینتیس اور چالیس چالیس سال کے اقتدار میں کچھ نہیں کر سکے وہ اب آکر کیا کر لیں گے۔ ہم زیادہ دور نہیں جاتے کیونکہ لوگوں کو پرانی باتیں یاد نہیں رہتیں۔ جو تازہ تازہ وارداتیں ہمارے ساتھ ہوئی ہیں ان کو یاد کر لیتے ہیں۔
2018 کے انتخابات میں برسر اقتدار آنے والی جماعت تحریک انصاف نے جو خواب عوام کو دکھائے تھے کروڑوں نئی ملازمتیں، لاکھوں نئے گھر، توانائی میں خود کفالت، نئے ڈیموں کی تعمیر اور نہ جانے کیا کچھ جن میں اوورسیز کی جانب سے ڈالروں کی برسات اور غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی شامل تھی۔ لیکن اگر اس بات کا ادراک ہوتا کہ ڈیم بنانے کے لیے پیسے درکار ہوتے ہیں اور ڈیم راتوں رات نہیں بن جاتے ان کی تعمیر کے لیے کئی سالوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے، روزگار کے مواقع ایسے ہی پیدا نہیں ہوجاتے ان کے لیے معاشی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے، قرضے ہوا میں تحلیل نہیں ہو سکتے لیکن ہمارے لیڈران ایسا ایسا مجمع باندھتے ہیں کہ لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں اور عوام میں سے بھی کبھی کسی نے نہیں پوچھا کہ حضور وہ کونسی جادو کی چھڑی ہے جس سے آپ یہ سارا کچھ ممکن بنا سکیں گے۔ حالانکہ معیشت کا دھماکہ ہو چکا تھا اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے اور مہنگائی کو بڑھانے کے سوا پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ جب عوام کو دکھائے جانے والے سبز باغوں کے برعکس مہنگائی ہوئی تو عوام نے چیخیں مارنا شروع کیں۔ اپوزیشن نے ان چیخوں کو کیش کروانے کی ٹھان لی اور مہنگائی کے خلاف ریلیاں نکالنی شروع کر دیں اور باقاعدہ تحریک شروع کر دی۔ تحریک انصاف کے چیرمین کے خلاف عدم اعتماد کی بنیادی وجہ جو عوام کو بتائی گئی وہ مہنگائی تھی اور پی ڈی ایم نے کہا کہ ہم آکر مہنگائی ختم کریں گے، معیشت کو مضبوط بنائیں گے۔ لیکن انھوں نے آکر پہلے سے بھی زیادہ بیڑا غرق کر دیا۔ سیاسی عدم استحکام نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ آج قوم جو کچھ بھگت رہی ہے یہ اسی سیاسی عدم استحکام کی بدولت ہے جس میں آج تک بہتری نہیں لائی جا سکی۔ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے عام آدمی کو قبروں تک پہنچا دیا ہے۔ رجیم چینج سے شروع ہونے والی سیاسی معاشی سماجی افراتفری آج تک کنٹرول نہیں ہو سکی اور نہ ہی جلد کنٹرول ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ اب ایک بار پھر پورے زور وشور سے عوام کو دوبارہ بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم اپنے حالیہ دور اقتدار کو کسی کھاتے میں نہیں لا رہی اور کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف 2017 والے دور حکومت کی قیمتوں کو واپس لائیں گے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں ایسا ممکن ہے؟۔ کہا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف نے جونہی وطن عزیز کی پاک دھرتی پر قدم رنجا فرمانا ہے سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔ مہنگائی فشوں ہو جائے گی کاروبار کھل جائیں گے ہر طرف لہراں بہراں ہو جائیں گی۔ بندہ پوچھے میاں صاحب کوئی جادو کا چراغ ساتھ لے کر آ رہے ہیں جووہ آکر رگڑیں گے اور سارا کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ خدارا عوام کو بے قوف نہ بنائیں جھوٹ پر عمارتیں کھڑی نہ کریں قوم کو حقیقتوں سے آگاہ کریں۔ انھیں بتائیں اصل حقائق کیا ہیں ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس طرح بہتری لائی جا سکتی ہے اس کا روڈ میپ دیا جائے اور قوم کو ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔ لیڈر شپ بھی قربانی دے اور قوم سے بھی تقاضہ کیا جائے کہ اس طرح ہم اس گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے جھوٹ اور ڈنگ ٹپاو پالیسیوں نے ملک کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے وہاں سے کسی جگاڑ یا شارٹ کٹ سے نہیں نکلا جا سکتا وہاں حالات کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔ لیکن جس طرح کے چکمے دے کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے مزید مایوسی پیدا ہو گی۔ سوچ سمجھ لیں کیا کرنا ہے کیا عوام کو ساتھ لے کر مسائل کا حل ڈھونڈنا ہے یا بےوقوف بنا کر مزید دلدل میں پھنسانا ہے۔