نگران وزیراعظم اور معیشت کی بحالی
کام کٹھن ضرورہے، لیکن دھیرے دھیرے قدم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈالر کی بلند اڑان کو لگام دی جاچکی ہے۔ روپے کی قدر میں اضافے کا عمل مسلسل جاری ہے۔ عمران خان نے جاتے جاتے ایک گھناﺅنی سازش کے تحت معیشت کے میدان میں جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھادیں۔ اس نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیااور پھر خود ہی اس کی دھجیاں بکھیردیں۔اس طرح اس نے عالمی مالیاتی اداروں کو تاثر دیا کہ پاکستان ناقابلِ اعتماد ملک ہے۔ ہم نے اتحادی حکومت کے دور میں دیکھا کہ آئی ایم ایف نے کس طرح ناک سے لکیریں نکلواکر دوبارہ معاہدہ کیا۔ عمران خان نے معیشت کی چولیں ہلاڈالی تھیں اور مہنگائی کا ایک سونامی برپا کردیا تھا۔ پٹرول اور بجلی کے نرخ عوام کی برداشت سے باہر ہوگئے تھے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی تھیں۔ اصلاح ِ احوال کیلئے اتحادی حکومت کے پاس وقت بہت کم تھا۔ بہرحال اس دور میں معیشت کی بحالی کا ایک قومی ایکشن پلان منظور کیا گیا اور معیشت کی ترجیحات متعین کی گئیں۔ نگران حکومت نے اس قومی معاشی ایجنڈے کو ہاتھ میں لیا،انہی خطوط پر ملکی اداروں سے تعلقات ِ کار بہتر کئے، بلکہ کسی حد تک فوج کی پیشہ ورانہ اہلیت کے پیش نظر اسے ہراول دستے میں رکھا، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ، لیکن فوج کا ادارہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ اس طرح قومی منصوبوں پر عمل درآمد کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے رضاکارانہ طور پر اصلاحِ احوال کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے کراچی میں صنعت و حرفت اور تجارت سے متعلقہ ممتاز شخصیتوں سے تبادلہِ خیال کیا اور یہ واضح کیا کہ وہ ملک میں کسی مافیا کو برداشت نہیں کریں گے۔ ایران کی طرف سے بڑی مقدار میں پٹرول اسمگل کیا جارہا تھا۔ ڈالر سے بھرے کنٹینر افغانستان جارہے تھے۔ پاکستانی ڈالروں سے افغان کرنسی مضبوط ہوئی۔ جبکہ پاکستانی روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھوبیٹھا۔ اس کے اثرات قومی زندگی کے ہرشعبہ پر مرتب ہوئے۔ پاکستان کے قرضے بیٹھے بٹھائے دوگنے تگنے ہوگئے۔ برآمدات سکڑتی چلی گئیں۔ درآمدات کی مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکلوادیں۔ڈالر کی کمی سے درآمد کنندگان کیلئے ایل سی کھلوانا مشکل ہوگیا۔ حتی ٰ کہ معاشی حالات اس قدر بگڑ گئے کہ ملک کی اندرونی صنعتی و زرعی پیداوار عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی۔ آٹے ، چینی ، گندم، سبزیوں اور پھلوں کی ہوشربا بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔ نگران حکومت کے پچھلے چند ماہ میں چینی اور آٹے کے نرخوں کو لگام دی جاچکی ہے۔ مارکیٹ کے عوامل کو بڑی حد تک کنٹرول کرلیا گیا ہے۔
سب سے بڑی کامیابی ڈالر کے ضمن میں ملی۔ جو تین سو روپے سے کہیں زیادہ اوپر چلا گیا تھا، اب وہ پونے تین سو روپے کے گراف کو چھو رہا ہے۔ عام خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ چند ماہ تک ڈالر کی شرح تبادلہ گرکر اڑھائی سو روپے تک آجائے گی، جس سے قومی معیشت پر دباﺅبڑی حد تک کم ہوجائے گا۔ خدا کرے کہ یہ مرحلہ جلد ازجلد اور بلارکاوٹ طے ہوجائے ، اور ہماری ملکی مارکیٹ میں استحکام آجائے۔
امن و امان کی صورتحال سے معیشت کا گہرا اور براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ بدامنی کی صورتحال میں معاشی پرندے اڑانیں بھرلیتے ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کار تو کیا، ملکی سرمایہ کار کے قدم بھی ڈگمگاجاتے ہیں۔ وہ اپنا سرمایہ باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ نگران حکومت نے بدامنی کے عوامل و محرکات کا سراغ لگالیا ہے اور غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملک چھوڑنے کی وارننگ دے دی گئی ہے۔ نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کھلے الفاظ میں واشگاف انداز میں واضح کیا ہے کہ اب غیر قانونی افراد کے لئے پاکستان میں ایک دن کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی ہے۔ بالخصوص افغان باشندوں نے پاکستان کو کھلواڑ بنالیا تھا۔ ان کےلئے وارننگ جاری ہوچکی ہے کہ وہ یکم نومبر سے پہلے پہلے پاکستان چھوڑ دیں۔ بصورت دیگر انہیں زبردستی پاکستان سے دھکیل باہر کردیا جائے گا۔ افغانستان کے غیر قانونی عناصر پاکستان میں عرصہ دراز سے دہشت گردی کی وارداتیں کررہے ہیں۔ لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاکر پاکستان کی معیشت کا گلاگھونٹ رہے ہیں۔
دوسری طرف ، پاکستان کے بیشتر کاروبار افغانیوں کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔ وہ جب چاہے ، ذخیرہ اندوزی کرکے اشیاءکی مصنوعی قلت پیدا کردیتے ہیں۔ اس طرح وہ پاکستانی عوام کی جیبوں پر بالواسطہ طور پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ چنانچہ نگران حکومت نے غیرقانونی باشندوں کے خلاف اس کارروائی کا آغاز کیا ہے ، اس سے قیامِ امن میں مدد ملے گی۔ اور معاشی عوامل کی باگ دوڑ واپس ہمارے ہاتھوں میں آجائے گی۔ نگران حکومت کی کوششوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، پٹرول کی قیمتوں میں دو مرتبہ کمی واقع ہوئی ہے جس سے عوام کو سکون کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔ آمدورفت اور باربرداری کے اخراجات میں کمی سے مہنگائی کے اثرات بھی کم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اصل میں مہنگائی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔کرونا بحران کے بعد حالیہ برسوں میں روس اور یوکرائن کی جنگ نے عالمی معاشی حالات کو دگرگوں کرکے رکھ دیا۔بہرحال حکومتِ پاکستان عالمی حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے خارجہ تعلقات کے میدان میں بے حد احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ چین ، سعودی عرب ، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی سے قربت کے رشتوں کو وسعت دی گئی ہے۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کے ساتھ باہمی معاملات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اس طرح پاکستان کو اس سفارتی تنہائی سے نکالا جاچکا ہے ، جس میں عمران حکومت نے ملک کو دھکیل دیا تھا۔ سابق عمران حکومت کے دور میں دور و نزدیک تک پاکستان کا کوئی دوست ملک نظر نہیں آتا تھا۔ اب ہمارے متعدد دوست ممالک کا اعتماد پاکستان پر ایک بار پھر بحال ہوا ہے اور ہم اس صورتحال کے ثمرات سے بہرہ مند ہورہے ہیں۔ نگران حکومت اپنے کارناموں کا ڈھول نہیں پیٹتی ، بس خاموشی سے اپنے مشن معاشی استحکام کی تکمیل کے لئے سرگرم ِ عمل ہے۔