• news

انتخابی جلسوں کی اجازت اور لاہور ہائیکورٹ کے ریمارکس 


ضلعی انتظامیہ نے مسلم لیگ (ن) کو 21اکتوبر کو مینار پاکستان کی گراﺅنڈ میں جلسہ کرنے کی اجازت دیدی۔ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جلسے کی اجازت کے این او سی کے ساتھ 39نکات پر مشتمل ایس او پیز اور ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا گیا۔دوسری جانب پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت کے حوالے سے انتظامیہ کا موقف ہے کہ تحریک انصاف کی درخواست کا بغور جائزہ لیا لیکن جلسے کی اجازت ملنا مشکل ہے۔تحریک انصاف جہاں جلسہ کرنا چاہتی ہے وہاں جلسے کی اجازت دینا ممکن نہیں، تحریک انصاف اگر بڑے گراﺅنڈ میں جلسہ کرنا چاہتی ہے تو پھر غور کیا جا سکتا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ہر سیاسی پارٹی پبلک جلسے کرنے کا آئینی حق رکھتی ہے‘ جب تک کسی پارٹی کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا یا اسکے سربراہ کو عدالت یا الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل نہیں کیا جاتا‘ اسے انتخابی سرگرمیوں سے نہیں روکا جا سکتا۔ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی نے ایک درخواست کے ذریعے انتظامیہ سے لبرٹی چوک میں پبلک جلسہ کرنے کی اجازت طلب کی‘ جس پر انتظامیہ نے اجازت نہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی اگر کسی بڑی جگہ پر جلسہ کرنا چاہتی ہے تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لبرٹی چوک پر اگر سکیورٹی خدشات ہیں تو جلسہ کسی دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے مگر کسی پارٹی کو جلسہ کی اجازت نہ دینا انتظامیہ کی طرف سے سراسر امتیازی سلوک تصور کیا جائے گا۔ دو روز قبل لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راحیل کامران شیخ نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر پی ٹی آئی کو جلسہ کی اجازت نہ دی گئی تو پھر کوئی پارٹی بھی جلسہ نہیں کر سکے گی۔ اس لئے انتظامیہ کو لاہور ہائیکورٹ کے ریمارکس کی روشنی میں غیرجابنداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی سمیت کسی بھی پارٹی کو جلسے سے نہیں روکنا چاہیے جب تک کہ کسی پارٹی پر آئین و قانون کے تحت پابندی عائد نہ کی گئی ہو۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی سمیت کسی بھی پارٹی کو اپنی انا کا مسئلہ بنائے بغیر جلسے کیلئے ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں ٹریفک کا مسئلہ پیدا نہ ہو اور عوام کو کسی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے تو انتظامیہ کو بھی اجازت دینے میں کوئی امر مانع نہیں ہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن