قومی اسمبلی سپیشل کمیٹی کی ملازمین بحالی سفارشات کی قانونی حیثیت نہیں: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے متاثرہ ملازمین کی سفارشات کے تحت سرکاری ملازمین کی بحالی اور مستقل کرنے کے خلاف کیس میں تمام وزارتوں اور محکموں کو خصوصی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد سے روک دیا اور کہا ہے کہ ای او بی آئی، سی ڈی اے، اوور سیز پاکستان فاو¿نڈیشن،پاکستان سٹیل ملز، ایف آئی اے بھی خصوصی کمیٹی کی سفارشات پر عمل نہ کریں۔ جسٹس محسن اخترکیانی کی عدالت سے جاری تحریری فیصلہ میں عدالت کایہ بھی کہنا ہے کہ اگر کمیٹی کی ملازمین کی بحالی کی سفارشات پر عمل ہوا ہے تو محکمے ان احکامات کو ختم کریں۔ عدالت نھ خصوصی کمیٹی کی سفارشات کیخلاف درخواستوں گزاروں کی تمام درخواستیں منظورکرتے ہوئے سفارشات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے افسران کیخلاف تادیبی کارروائی غیر قانونی قرار دے دی اور کہاکہ قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کے تحت سپیشل کمیٹی اپنے مقرر کردہ اختیارات سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ وفاقی حکومت نے بھی خصوصی کمیٹی کی سفارشات کو سپورٹ نہیں کیا۔ سپیشل کمیٹی کی سفارشات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، علاوہ ازیں چیف جسٹس عامر فاروق نے وفاقی دارالحکومت میں پوسٹ مارٹم کرنے والے میڈیکل افسران کی تقرری کے خلاف درخواست میں وفاقی وزارت صحت، پمز اور پولی کلینک ہسپتال انتظامیہ کو جواب کیلئے نوٹس جاری کر دیئے۔ علی بخاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کرنے والے کو دو سال کوالیفائیڈ ہونا چاہیے۔ میڈیکل آفیسر اور میڈیکو لیگل افسر میں فرق ہوتا ہے۔ وکیل قیصر امام نے کہاکہ پوسٹ مارٹم کرنے والا ٹرینڈ نہ ہو تو رپورٹ میں فرق آ جاتا ہے۔ استدعا ہے کہ عدالت فریقین کو نوٹس جاری کرے اور پوسٹ مارٹم کے لیے ٹرینڈ، قابل افسران کی تعیناتی کا حکم دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ معذرت کے ساتھ پوسٹ مارٹم کرنے والوں کا اسلام آباد میں تو ب±را حال ہے، پھر کہوں گا معذرت کے ساتھ یہاں ایک خاتون افسر ہیں جو پوسٹ مارٹم کے شعبے سے ہیں، معذرت ہی ہے بس، اسلام آباد میں پوسٹ مارٹم کرنے والوں کو کوئی حال نہیں نہ میڈیکل افسر ٹرینڈ ہوتے ہیں۔ عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 نومبر تک جواب طلب کرلیا۔