• news

پاکستان میں اسرائیل کے شبھ چنتک۔ 

غزہ کے ہسپتال پر بمباری کی خبر سی این این نے کچھ یوں نشر کی کہ لگتا ہے حماس کی طرف سے چلایا گیا میزائل غلطی سے ہسپتال جا لگا۔ اور بی بی سی نے خبر فلسطینی حکام کے منہ میں ڈال کر دی کہ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ہسپتال پر بمباری کر دی۔ 
ہسپتال پروٹسٹنٹ مسیحیوں کا تھا اور اس کے عملے میں مسلمان اور مسیحی دونوں تھے۔ چار ہزار افراد / مریض بمباری کے وقت موجود تھے جن میں سے ایک ہزار تو فوری شہید ہو گئے، مزید ایک ہزار کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ مرنے والوں میں سینکڑوں بچے تھے، یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں البتہ یہ بتانے میں مضائقہ نہیں کہ سو کے قریب بچے نوزائیدہ تھے اور انکلیو بیٹرز میں تھے۔ حملے کے بعد کے مناظر کی تفصیل میں جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ وہی نعشوں اور انسانی اعضا کے ڈھیر، بہت سی لاشیں اڑ کر ہسپتال سے باہر گلیوں اور سڑکوں میں جا گریں۔ بہت سے بری طرح روتے بچے اور بہت سے ایسے بچے جو زخمی تھے لیکن رونا بھول گئے۔ کئی بچوں کی لاشوں کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ امریکی صدر ”جیو“ بائیڈن کو بھی ہسپتال پر بمباری سے صدمہ ہوا۔ یہ بتانے کی ضرورت انہوں نے نہیں سمجھی کہ حملہ کس نے کیا۔ برطانوی امریکی میڈیا مسلسل اشارہ بازی کر رہا ہے کہ حماس کا میزائل گرا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ میزائل گرا نہ بم، ہسپتال کے نیچے حماس کا دبایا ہوا گولہ بارود پھٹ گیا۔ مسیحیوں کے ہسپتال میں حماس نے یہ تہہ خانے کیسے بچھا دئیے۔ 
ہسپتال پر حملہ امریکی ڈپلومیسی کی ”سڈن ڈیتھ“ کا باعث بھی بنا۔ مصر اور اردن کے بادشاہوں اور مغربی کنارے کی انتظامیہ کے سربراہ نے بائیڈن سے طے شدہ ملاقاتیں منسوخ کر دیں۔ خطے میں امریکی دائرہ اثر کے مزید ”سکڑاﺅ“ کا ذمہ دار جتنا نیتن یاہو ہے، اس سے زیادہ صدر بائیڈن ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کو سب سے زیادہ حیرت متحدہ عرب امارات کے ردّعمل پر ہوئی۔ اس نے بھی ہسپتال پر بمباری کی مذمت کر دی ہے۔ اب تک اسرائیل امارات کو اپنا ”صوبہ“ تصوّر کرتا رہا ہے۔ 
_____
غزہ میں دنیا نے جو دیکھا اور جو ابھی مزید دیکھے گی وہ کوئی اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہی سب کچھ دنیا نے محض چند ہی عشرے پہلے بوسنیا میں دیکھا جہاں یورپ کی سرپرستی میں سربوں نے 16 لاکھ بوسنی مسلمانوں میں سے دو لاکھ مار ڈالے۔ پھر شام میں دیکھا جہاں روس ایران امریکہ اسرائیل اور بشارالاسد نے ایک پیج پر آ کر شام کے شہریوں کو چیر پھاڑ ڈالا۔ دس لاکھ سے زیاد ہ شہری مار ڈالے جن میں چار لاکھ بچے تھے اور ڈیڑھ کروڑ کو ملک ہی سے نکال دیا۔ یہی کچھ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہوا جہاں آدھی آبادی ختم کر دی گئی۔ یہی کچھ چند عشرے پہلے کمبوڈیا میں بھی دیکھا جہاں پول پاٹ نے 90 فیصد سے زیادہ مسلمان مار ڈالے، دس فیصد فوج کی آپریشنل کوتاہیوں کی وجہ سے بچ نکلے۔ یہی کچھ عراق میں ہوا، یہی کچھ افغانستان میں ہوا۔ دو بار افغانستان میں، تین بار عراق میں۔ 
_____
پاکستان میں تقریباً ہر شہری نے فلسطین پر برپا کی جانے والی قیامت کی مذمت کی ہے۔ چند ایک نے نہیں کی ہے۔ اسرائیل کے شبھ چنتک اپنے ہم نواﺅں سمیت غائب ہیں۔ پی ٹی آئی کے سوا ہر سیاسی جماعت نے مذمت کی ہے، احتجاجی مظاہرے صرف جماعت اسلامی، جے یو آئی اور لبیک نے کئے۔ جماعت اسلامی کا کراچی والا مظاہرہ تو اتنا زبردست تھا کہ اسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ میلوں لمبا جلوس اور جام پیک۔ مسلم لیگ نے ایک بھی احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا البتہ نواز شریف اور مریم نواز نے سخت اور واضح مذمتی بیان دئیے۔ شہباز شریف نے بھی بیان دیا البتہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیّاد بھی۔ پیپلز پارٹی فلسطین کی حامی رہی ہے لیکن معاملہ چونکہ غزہ والوں کا ہے جو ضرورت سے زیادہ ”اسلامی“ ہے اس لئے اس کے بیانات پر بھی عقل و خرد کا غلبہ ہے، احتجاجی مظاہرہ اس نے بھی نہیں کیا۔ 
جماعت اسلامی کا ادارہ الخدمت غزہ پہنچا ہے۔ اور موت کی چھاﺅں میں امدادی سرگرمیاں کر رہا ہے۔ 
پاک فوج کے سربراہ اور کور کمانڈرز کانفرنس نے سخت بیانات جاری کئے اور قومی موقف کی لاج رکھ لی۔ آئس کریم کھانے میں مگن نگران حکومت کے بیانات کچھ ایسے ”شاندار“ تھے کہ نہ دئیے جاتے تو زیادہ شاندار ہوتے۔ 
_____
پی ٹی آئی مخمصے میں ہے۔ مذمتی بیان دینا چاہتی لیکن کس کی مذمت کرے یہ ابھی فیصلہ نہیں کر سکی۔ جیل کے اندر سے خان صاحب کے ٹویٹ اور پیغامات بذریعہ سوشل میڈیا گردش کر رہے ہیں لیکن ان میں فلسطین کا کوئی ذکر نہیں۔ ان میں ورزش کے لیے سائیکل، واک کیلئے زیادہ جگہ (جو دے دی گئی ہے) اور دیسی ککڑ بکرے وغیرہ کی فرمائش ہے یا نواز زرداری اور فضل الرحمن سے مذاکرات کی ”شدید خواہش“۔ پیغام سے واضح نہیں ہوتا کہ وہ ان چوروں ڈاکوﺅں سے کس معاملے یا کن امور پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ 
خان صاحب کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان کی ایک پریس ٹاک سامنے آئی ہے۔ ان کے بارے میں اکثریت کا خیال ہے کہ وہی خان صاحب کی جانشین ہوں گی۔ ان اکثریتی تجزیہ نگاروں کو گمان ہے کہ محترمہ پیرنی صاحبہ کا پتہ اس دوڑ سے کٹ چکا ہے۔ محترمہ اس پریس ٹاک میں یہ کہتی پائی گئی ہیں کہ پاکستان میں (تحریک انصاف والوں سے) وہی ہو رہا ہے جو فلسطین میں فلسطینیوں سے ہو رہا ہے۔ فلسطین کی حد تک انہوں نے بس اتنا کہا۔ اسرائیل کا نام نہیں لیا، نام لئے بغیر مذمت بھی نہیں کی۔ 
ہمارے خیال میں ان کا یہ بیان سی این این اور بی بی سی کی بریکنگ نیوز اور ہیڈ لائن ہونا چاہیے کہ پاکستان میں وہی ہو رہا ہے جو فلسطین میں ہو رہا ہے۔ 
ان سے پوچھا گیا کہ احتجاجی مظاہروں کا کیا پروگرام ہے۔ فرمایا عوام کو خود نکلنا چاہیے، کال کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ 
یہ بھی اعتراف ہی کی ایک ”روحانیاتی“ قسم ہے۔ اس بات کا اعتراف کہ خان صاحب سو سے زیادہ کالیں تو دے چکے، کوئی نہیں نکلا۔ اب کوئی کال نہیں دیں گے، عوام خود نکلیں، اگر انہوں نے نکلنا ہے تو__ نہیں نکلنا تو خصماں نوں کھائیں۔ 
_____
پی ٹی آئی سابق سفارت کار اسد مجید کی تعریفوں کے پل باندھا کرتی تھی کہ ان کی ”حق گوئی“ سائفر کیس کے پرخچے اڑا کر رکھ دے گی تو لیجئے صاحبان، انہوں نے حق گوئی کر دی ہے۔ انہوں نے بھی خان صاحب کے خلاف گواہی دی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ بیان خان صاحب کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ”سلطانی بیان“ سے بھی زیادہ خطرناک ہو گا۔ کس کیلئے ؟۔ ظاہر ہے، ”خطرے ناک“ کیلئے__ انہوں نے خان صاحب کے دعوﺅں کی تردید کی۔ اب پرخچوں کا انتظار فرمائیے!

ای پیپر-دی نیشن