ڈاکٹر طارق کلیم: مزاحمت کا استعارہ
ڈاکٹر طارق کلیم گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور میں اردو زبان و ادب کے استاد ہیں۔ اردو طنز و مزاح میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل اس شخص کا تدریسی تجربہ تقریباً تین دہائیوں کو محیط ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے ڈاکٹر طارق کلیم سنٹرل جیل کوٹ لکھپت لاہور میں قید ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ پنجاب کی نگران حکومت کو یہ بتارہے ہیں کہ کون سے کام اس کے دائرہ¿ اختیار میں نہیں آتے۔ سرکاری ملازمین کی لیو انکیشمنٹ، گریچوٹی اور پنشن سے متعلق مستقل قواعد میں نگران حکومت تبدیلیاں کر کے ملازمین کے حقوق غصب کرنا چاہتی ہے، اور ڈاکٹر طارق کلیم اور ان کے ساتھی نگران حکومت کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ اس پاداش میں اب تک بیسیوں اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین گرفتار ہوچکے ہیں جن میں سے کچھ پر بے بنیاد مقدمات بنائے جاچکے ہیں اور کچھ کو ضلعی انتظامیہ کے حکم کے مطابق نقصِ امن کے اندیشے کے پیش نظر جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔
آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) کے پلیٹ فارم سے ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اس وقت پورے صوبے میں پھیل چکا ہے اور جگہ جگہ سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین نگران حکومت کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ وہ اپنے حقوق سے کسی بھی صورت میں دستبردار نہیں ہوں گے۔ پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایل اے) سمیت اساتذہ کی تمام تنظیمیں اگیگا کا حصہ بن کر ان احتجاجی مظاہروں میں بھرپور شرکت کررہی ہیں۔ مختلف شہروں میں ہونے والے ان مظاہروں میں ہزاروں خواتین کی شرکت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ نگران حکومت کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں اور یہ اپنے جائز حقوق لے کر رہیں گے۔ دو تین روز پہلے ان مظاہروں کی ایسی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ برستی بارش میں چھتریاں لیے مرد و خواتین اپنے حقوق کے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔
جیل میں ڈالے جانے سے پہلے تک پی پی ایل اے کی قیادت ڈاکٹر طارق کلیم کے ہاتھ میں تھی کہ وہ کالج اساتذہ کی اس نمائندہ تنظیم کے مرکزی صدر ہیں۔ اس وقت ان کی جگہ کچھ اور لوگ کالج اساتذہ کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کالجوں اور سکولوں میں کہیں تدریسی عمل کا مکمل بائیکاٹ چل رہا ہے اور کہیں جزوی طور پر بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ صورتحال یقینا ناخوشگوار بھی ہے اور پریشان کن بھی لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے اور ان کے جن اقدامات نے اس مسئلے کو جنم دیا ہے وہ قانونی طور پر ان اقدامات کے لیے کوئی اختیار بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ آئین میں درج ہدایات کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ نگران حکومت کی ذمہ داری صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے معاونت فراہم کرے۔ مستقل نوعیت کے فیصلے کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہوتا۔
یہ ایک افسوس ناک بات ہے کہ اپنے فیصلوں سے پنجاب کی نگران حکومت نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے صوبے بھر میں اساتذہ سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کسی بھی اور صوبائی حکومت یا وفاقی حکومت کی جانب سے اس قسم کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین پہلے ہی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ انھیں وفاق اور دوسرے صوبوں کے ملازمین کی نسبت امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انھیں کئی ایسے حقوق نہیں ملتے جو وفاق اور دوسرے صوبوں میں ملازمین کو مل رہے ہیں۔ اب نگران حکومت نے ان کو مزید نقصان پہنچانے کے لیے جو متنازع فیصلہ کیا ہے اس نے ان ملازمین کو اس بات پر اکسایا ہے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئیں اور حکومت کو یہ بتائیں کہ وہ اس فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔
عام سرکاری ملازموں اور بیوروکریسی کو ملنے والے ماہانہ مشاہروں کے مابین پہلے ہی بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یکم جولائی 2019ءسے ملک بھر میں بیوروکریسی کو گریڈ 17 سے لے کر گریڈ22 تک ایگزیکٹیو الاو¿نس کے نام پر ہر مہینے ڈیڑھ گنا اضافہ تنخواہ دی جاتی ہے، یعنی ہر سال میں اٹھارہ اضافہ تنخواہیں۔ یوٹیلٹی الاو¿نس، سیکرٹریٹ الاو¿نس اور بے شمار دیگر سہولیات اور مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ سرکاری گھر اور گاڑی کی سہولتیں بھی بیوروکریسی کو ہی حاصل ہیں۔ یوں گریڈ 17میں کام کرنے والے ایک سی ایس پی آفیسر کو اسی گریڈ میں کام کرنے والے لیکچرار کے مقابلے میں تین چار گنا زیادہ تنخواہ ملتی ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔ اساتذہ جن کے ذمے قوم کی تعمیر اور نوجوان نسل کی ذہن سازی ہے ان کے مقابلے میں فائلیں سیدھی کرنے والے بابوو¿ں کو کئی گنا تنخواہ دینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں۔
اگر خزانے پر بوجھ کا مسئلہ ہے تو پھر بیوروکریسی اور عام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق کو ختم کیا جائے۔ 1970ءکی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل پے سکیل سسٹم متعارف کرایا تھا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک ہی گریڈ میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہ یکساں ہوگی۔ اس نظام کے ذریعے ملازمین کو یہ احساس دلایا گیا کہ ان میں سے کوئی بھی برتر یا کمتر نہیں ہے۔ اگر ہم واقعی اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس نظام کو پوری طرح نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر آئے روز ہمیں سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ اس سلسلے میں پنجاب کی نگران حکومت کے لیے تجویز یہ ہے کہ وہ اپنے آئینی دائرہ¿ کار میں رہتے ہوئے صرف اسی کام پر توجہ دے جس کا آئین اس سے تقاضا کرتا ہے ورنہ اس کے مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔