لیڈروں کے صحیح انتخاب کی ضرورت
منظم منصوبے اور طے شدہ تاریخ کے مطابق پاکستان کے تین مرتبہ منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف نے بالآخر اگلے روز لندن کو خیرباد کہہ دیا۔ لندن سے سعودی عرب اور دبئی سے ہوتے ہوئے دو روز بعد وہ اب اپنے وطن عزیز میں قدم رنجا فرمانے والے ہیں۔ چار برس قبل نوازشریف صاحب لندن میں اپنی ”ایون فیلڈ“ رہائش گاہ جب آئے تو وہ پلیٹلیٹس کی بیماری میں مبتلا تھے‘ ان کے ذاتی معالجوں سمیت اس وقت کی حکومت کی صوبائی میڈیکل ٹیم کی سفارش پر بغرض علاج انہیں فوری طور پر انگلستان بھجوانے کی درخواست کی گئی جس کی اجازت دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے حکومت کو حکم دیا کہ مریض قیدی کے فوری علاج کیلئے قانونی دائرہ کار اپناتے ہوئے انہیں بغرض علاج برطانیہ بھجوانے کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ اس وقت نوازشریف صاحب عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی جیل کی چونکہ سزا کاٹ رہے تھے‘ اس لئے حکومت نے انکی میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں انہیں لندن علاج کروانے کی توثیق کر دی اور یوں سابق وزیراعظم اپنی سزا ادھوری چھوڑ کر لندن آگئے تاکہ یہاں وہ اپنی اس بیماری کا فوری علاج کروا سکیں۔ اب اسے حسن اتفاق کہہ لیں کہ جن دنوں وہ لندن آئے اس وقت تک کووڈ۔ 19 مکمل طور پر برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا چنانچہ بعض اطلاعات کے مطابق جان لیوا کووڈ کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر میاں صاحب کا مکمل علاج مبینہ طور پر التواءکا شکار ہو گیا اور یوں وہ وقت بھی گزر گیا۔ پھر ان اطلاعات کے بعد کہ نوازشریف صاحب کی حالت اب خطرے سے باہر ہے‘ انہوں نے ہلکی پھلکی واکنگ اور پھر دوست احباب سمیت اپنے دیرینہ مسلم لیگی کارکنوں اور رہنماﺅں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعدازاں ہسپتال میں مکمل علاج ہوا یا محض ”پروسیجر“ پر اکتفا ہوا۔ میرے ذرائع نے بتانے سے احتراز کیا ہے تاہم میاں صاحب کی صحت کو خطرے سے باہر قرار دے دیا گیا۔
اب اس خبر نے کہ پاکستان روانگی سے قبل نوازشریف صاحب کی جانب سے انکی صحت کے بارے میں ایک میڈیکل رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرادی گئی ہے جس میں یہ نشاندہی کی گئی کہ دیگر پروسیجر ٹیسٹس کے سلسلہ میں مستقبل قریب میں انہیں دوبارہ لندن بلایا جا سکتا ہے۔ مجھے ہی نہیں‘ برطانوی پاکستانیوں کی مختلف مسلم لیگی دھڑوں میں منقسم ایک بڑی تعداد کو بھی حیرانی سے دوچار کردیا ہے۔ اس حیرانگی کی بنیادی وجہ یہ کہ لندن میں عرصہ چار برس قیام کے بعد بھی میاں صاحب مکمل طور پر اگر صحت یاب نہیں ہوئے‘ دل کے امراض سمیت‘ ذیابیطس اور دیگر بیماریوں سے مکمل طور پر اگر وہ چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے تو ان حالات میں فوری پاکستان آکر سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے اور ”ووٹ کو عزت دو“ کے نعرے کو پھر سے متعارف کروانے میں انہیں آخر اتنی جلدی کیا تھی؟ اس بارے میں برطانوی سیاسی حلقوں میں بھی مختلف چہ میگوئیاں جاری ہیں۔
”ایون فیلڈ“ سے میاں صاحب کی گو روانگی ہو چکی ہے تاہم اس مہنگے ترین علاقہ میں واقع انکی اعلیٰ ترین اس رہائش گاہ کے باہر اپنی مدد آپ کے تحت وجود میں آئی مقامی تحریک انصاف کی سیاسی رونقیں بھی برقرار ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اپنی تنظیم کے ہمراہ یہاں احتجاج کرنیوالا ایک برطانوی پاکستانی نوجوان بتا رہا تھا کہ بغرض علاج نوازشریف جب آئندہ لندن آئیں گے تو ایون فیلڈ کے بجائے لندن کے کسی اور پوش علاقے میں وہ اپنا گھر اور دفتر خرید چکے ہونگے کہ ہماری پرامن Demonstration ان کے اعصاب پر اس قدر اثرانداز ہو چکی ہے کہ مستقبل میں وہ اب مزید اعصابی تناﺅ برداشت نہیں کر سکتے۔ آئندہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ مگر برطانوی پاکستانیوں سمیت گوروں کی نظریں اب 21 اکتوبر 2023ءپر لگی ہوئی ہیں جس روز نواشریف اپنی پاک سرزمین پر دوبارہ قدم رکھیں گے۔ سوالات یہاں یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ پاکستان لینڈ کرنے کے فوری بعد قائد مسلم لیگ اپنے آپ کو کیا قانون کے حوالے کرتے ہوئے اپنی قید کی سزا کا بقایا حصہ جیل میں گزاریں گے؟ یا پھر طیارے سے اترنے کے فوری بعد وہ یادگار پاکستان میں رکھے عوامی جلسے سے خطاب کریں گے؟ ان قانونی پیچیدگیوں سے نبردآزماءہونے کیلئے میاں صاحب کی قانونی ٹیم نے یقیناً دن رات ایک کر دیا ہوگا تاہم آئندہ متوقع الیکشن سے قبل نوازشریف صاحب کو ابھی مزید متعدد پیچیدہ مراحل طے کرنا ہیں کہ عدالت عظمیٰ انہیں سزا یافتہ قرار دے چکی ہے۔ اس حقیقت کو بھی جھٹلانا ممکن نہیں کہ بغرض علاج لندن آنے سے قبل جیل میں وہ سزا کاٹ رہے تھے۔ اس بارے میں اگلے روز میں نے جب یہاں اپنے ایک گورے قانون دان دوست سے جاننا چاہا تو دوست کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رکھنا اہم ہے کہ تین مرتبہ منتخب وزیراعظم Convicted ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے پر بھی ان پر پابندیاں ہیں۔ فیصلہ عدالت عظمیٰ کو ہی کرنا ہے کہ بقایا سزا وہ جیل میں کاٹیں گے یا پھر انکی رہائش گاہ کو ”سب جیل“ قرار دے دیا جائیگا۔ اسی طرح انتخابی عمل میں حصہ لینے سے قبل انہیں ریٹرننگ آفیسر کو مطمئن کرنا ہوگا۔ عدالتیں کیا فیصلہ دیتی ہیں‘ اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔