” بقول آصف زرداری” مادرِ جمہوریت“ بیگم نصرت بھٹو؟“
معزز قارئین! 23 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو کی 12 ویں برسی منائی جائے گی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی پہلی بیگم محترمہ امیر بیگم کی زندگی ہی میں 8 دسمبر 1951ءکو مِس نصرت اصفہانی کی شادی ہوئی تھی۔
بیگم نصرت بھٹو کچھ عرصہ سیاست میں Active" "۔ رہیں۔ پاکستان کے سِویلین چیف مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر ، صدر اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے خاتونِ اوّل کہلائیں۔ بیگم نصرت بھٹو کا 23 اکتوبر 2011ءکو انتقال ہوا تو ان کے پاس پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں تھا۔
آصف علی زرداری صدر مملکت تھے۔ جب انہوں نے اپنی۔”خوش دامن “ کی چوتھی برسی پر 23 اکتوبر 2015ءکو انہیں۔
” مادرِ جمہوریت“۔ کا خطاب دِیا اور قوم کے نام پیغام میں کہا کہ ” بیگم نصرت بھٹو ایک قومی اثاثہ ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں قد آورمقام رکھتی ہیں اور جمہوریت کے لئے انکی لازوال جدوجہد جمہوریت پسندوں کے لئے مینارہ نور ہے !“۔
مجھے یقین ہے کہ اِس بار بلاول بھٹو زرداری بھی اپنی مرحومہ نانی صاحبہ کی جمہوریت کے لئے خدمات کا تذکرہ کرنے اور اپنی پارٹی کے۔” جمہوریت پسندوں“۔ کو کوئی پیغام ضرور دیں گے“۔
30 نومبر 1967ءکو جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں کے اجلاس میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو ” پاکستان پیپلز پارٹی “ کے چیئرمین ” منتخب “ ہوگئے تھے۔ پارٹی کے باقی تمام عہدوں پر۔(اوپر سے نیچے تک)۔ جنابِ بھٹو نے عہدیدار نامزد کئے یا ان کے نامزد کردہ عہدیداروں نے۔ جنابِ بھٹو جب تک زندہ رہے انہوں نے اپنی پارٹی کے دوسرے راہنما اصول۔ ”جمہوریت ہماری سیاست ہے“۔ کی پروا نہیں کی اور جب وہ نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے سب سے بڑے ملزم کی حیثیت سے گرفتار ہوکر جیل گئے تو انہوں نے اپنی اہلیہ۔بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن مقرر کردِیا۔
کچھ عرصہ بعد۔بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی۔”شریک چیئرپرسن “۔ نامزد کر دِیا۔
دسمبر 1993ءمیں۔”شریک چیئرپرسن“۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (جس کے سارے ارکان جنابِ ذوالفقار علی بھٹو ، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے نامزد کردہ تھے ) کا ہنگامی اجلاس طلب کرکے اپنی مادرِ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کر کے خود پارٹی کی چیئرپرسن کے عہدے پر قبضہ کرلِیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ” چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو کو اجلاس کی خبر ہی نہیں تھی۔چیئرپرسن منتخب ہو کر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں پارٹی کے کسی بھی لیڈر کو پارٹی کا وائس چیئرپرسن نہیں مقرر کِیا تھا۔ یہاں تک کہ۔ اپنے۔”شوہرِ نامدار“۔ آصف علی زرداری کو بھی نہیں!۔
18 جولائی 1985ءکو ”Nice“۔ (فرانس) میں بے نظیر بھٹو کے بھائی شاہنواز بھٹو پراسرار طور پر جاں بحق ہوئے اور 20 ستمبر 1996ءکو بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں ان کے دوسرے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہوا۔ (وہ ایک الگ کیس ہے )۔ بیگم نصرت بھٹو کو اپنے دونوں بیٹوں کی موت کا بہت صدمہ تھا اور جب ان کی وزیراعظم بیٹی نے ان سے چیئرمین بھٹو کی سیاسی وراثت چھین کر خود چیئرپرسن شِپ پر قبضہ کرلِیا تو وہ اپنی باقی زندگی خاموش رہ کر ہی بسر کرتی رہی ہیں۔
صدر آصف علی زرداری کا اپنی خوش دامن کو ” مادرِ جمہوریت‘ ‘۔(The Mother of Democracy)کا خطاب دینا عجیب سی بات تھی۔ مختلف ملکوں میں جمہوریت کا قیام ایک طویل داستان ہے اور پاکستان میں بھی۔ نواب شاہ سے دونوں باپ بیٹا قومی اورصوبائی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔
”مادرِ جمہوریت “ بیگم نصرت بھٹو کی ہر برسی پر قومی اخبارات میں جناب آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کے مختصر پیغامات شائع ہوتے رہتے ہیں۔
28 ستمبر 2021ءکو انتقال کرنے والے برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن اکثر بیگم نصرت بھٹو کی اہمیت پر مضامین لکھتے اور چھپواتے رہے ہیں۔ وہ برصغیر میں تحریکِ آزادی ، تحریکِ خلافت ، تحریکِ پاکستان میں نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین کا تذکرہ بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ تحریکِ خلافت میں رام پور۔( U.P) کی محترمہ عابدی بانو بیگم المعروف۔”بی اماّں“(مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر کی والدہ محترمہ ) کی جدوجہد کا تذکرہ بھی کرتے رہے ہیں۔
”حاکم علی، آصف علی زرداری ! “
صدر جنرل ضیاءالحق کے دَور میں 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں حاکم علی زرداری اور ان کے فرزند آصف علی زرداری نواب شاہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے تھے۔
18 دسمبر 1987ءکو محترمہ بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی لیکن محترمہ نے اپنی زندگی میں اپنے ”شوہر نامدار“ کو اپنی پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ؟۔
27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا تو آصف زرداری صاحب نے مقتولہ بے نظیر بھٹو کی مبینہ ( اور برآمدہ ) وصیت کے مطابق اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ” بھٹو “ کا خطاب دے کر اسے ” پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین نامزد کر دیا خود اس کے ماتحت شریک چیئر پرسن بن گئے؟۔ اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرئینز کی چیئرمین شپ خود سنبھال لی۔
المختصر جولائی 2018ءکے عام انتخابات میں ، آصف زرداری صاحب کی صدارت میں ، تیر کے انتخابی نشان والی ” پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز “ نے حصہ لِیا۔
بلاول بھٹو زرداری کی چیئرمین شپ میں ، تلوار کے انتخابی نشان والی ، مسٹر بھٹو کی یادگار ” پاکستان پیپلز پارٹی “ (پی۔ پی۔ پی) حصہ نہیں لے سکی ؟۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے اباّ جی کی ” پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز“ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن ہیں لیکن، چیئرمین ” پاکستان پیپلز پارٹی “ کہلاتے ہیں ؟۔ مرنے والوں کے بارے میں علاّمہ اقبال نے کہا تھا کہ ....
” مرنے والے مرتے ہیں ، لیکن فنا ہوتے نہیں !
وہ حقیقت میں کبھی ، ہم سے جدا ہوتے نہیں !
....O....
معزز قارئین! مَیں سوچ رہا ہوں کہ ” بیگم نصرت بھٹو صاحبہ ایک سادہ سی خاتون تھیں اور وہ اپنی برسی کے موقع پر کیا سوچ رہی ہوں گی؟۔
٭....٭....٭