نوازشریف نے نیا سیاسی منشور پیش کیا، مفاہمت پر زور
لاہور (تجزیہ: ندیم بسرا )مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے چار برس بعد ملک واپسی پر نیا سیاسی منشور پیش کر دیا ہے، جس میں انہوں تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان مفاہمت پر زور دیتے ہوئے تمام حریفوں کو معاف کردیا ہے۔ کیا دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات چرانے والے اور بدترین سیاسی حریف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی اس معافی شامل ہیں یا نہیں اس پر کچھ واضح نہیں ہے۔ان کی گفتگو سے یہی تاثر ملا ہے کہ وہ ملک میں ایک بار پھر سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاقِ جمہوریت چاہتے ہیں اور ڈائیلاگ کو ہی واحد حل سمجھتے ہیں ان کے مطابق ملکی مسائل کا حل سولو فلائٹ کی بجائے اجتماعی مل بیٹھنے اور مذاکرات میں ہے۔ انہوں نے کشمیر کے حل کے لیے باوقار تجویز دے کر بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ساتھ آمریکہ سمیت دیگر طاقتور ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانے کو ہی صحیح آپشن قرار دیا ہے۔ ان کی تقریر بظاہر تو ن لیگ کا بیانیہ ہی ہے جو ماضی میں "مجھے کیوں نکالا" سے بلکل مختلف ہے۔ یہ بیانیہ وہ انتخابات میں عوام کے سامنے رکھ سکتے ہیں کیا یہ منشور عوام میں کارگر ہو سکتا ہے یا نہیں کچھ نہیں کہ سکتے کیونکہ عوام مہنگائی سمیت دیگر چیزوں کا سخت ردعمل رکھتے ہیں۔ اس کا سامنا ن لیگ کو تو کرنا پڑے گا اور انہیں ہی عوام کو مطمئن کرنا ہوگا۔ انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو معاف کر کے مفاہمت کی بنیاد رکھی ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک کے معاشی، سماجی مسائل کا حل سیاسی جماعتوں کے درمیان مل بیٹھنا ہی ہے یہ سوال یہاں ضرور کھڑا ہوتا ہے کہ وہ کن سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں کہیں پی ڈی ایم کو پھر تو نہیں بنانا چاہتے اور کن لوگوں کو معاف کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور جن لوگوں پر پی ٹی آئی جماعت بنانے اور دوہزار اٹھارہ کے انتخابات چرانے کے الزامات ہیں وہ بھی معاف کر دئیے گیے ہیں یا نہیں اس پر کچھ نہیں کہ سکتے۔ بظاہر تو مسلم لیگ ن کا یہ بڑا پاور شو تھا یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ماضی میں پی ٹی آئی کے دوہزار گیارہ کے جلسے سے زیادہ بڑا پاور شو تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ اس جلسے میں ملک کے سبھی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ نواز شریف کو چار برس بعد ملک میں اس سے اچھا خوش آمدید نہیں کہا جا سکتا جس کے لیے مریم نواز یقینناً مبارک باد دی جانی چاہیے۔