• news

اسرائیلی بربریت کیخلاف پاکستان اور چین کا مشترکہ اعلامیہ

پاکستان اور چین نے فلسطین اور اسرائیل کے مابین کشیدگی اور تشدد کی موجودہ بڑھتی ہوئی شدت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے دورہ چین کے اختتام پر جاری ہونیوالے مشترکہ بیان میں دونوں ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تنازعہ سے نکلنے کا بنیادی راستہ ”دو ریاستی حل اور فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام“ میں مضمر ہے۔ مشترکہ بیان میں فلسطین‘ اسرائیل مخاصمت بند کرنے‘ شہریوں کے تحفظ اور غزہ میں مزید انسانی تباہی سے بچنے کیلئے تمام تر کوششیں بروئے کار لانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ دریں اثناءنگران وزیراعظم نے سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی کی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی اور مسلم امہ کی ترقی و خوشحالی اور غزہ کے مظلوم عوام کے حق میں دعا کی۔ وزیراعظم کاکڑ صدر عوامی جمہوریہ چین شی جن پنگ کی دعوت پر دورہ چین پر گئے تھے جہاں انہوں نے چین کے عالمی رابطہ و ترقی کے منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی میٹنگ میں شرکت کی اور اس میٹنگ میں شریک دوسری عالمی قیادتوں بشمول صدر روس پیوٹن سے ملاقاتیں بھی کیں۔ 
غزہ کے علاقے میں اسرائیلی وحشت و بربریت کی ننگ انسانیت کارروائیاں شروع ہوئے پندرہ دن سے زیادہ گزر گئے ہیں اور اسرائیلی بربریت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سلسلہ فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل کے زیرقبضہ فلسطین کے علاقوں پر میزائل حملوں کے بعد شروع ہوا جس کے بعد اسرائیل نے اپنے مسلسل فضائی اور زمینی حملوں کے ذریعے غزہ کو انسانی آبادی سمیت ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حد تو یہ ہے کہ اسرائیل نے سکولوں‘ مدارس‘ مارکیٹوں اور مساجد تک کو بھی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنایا اور بے بس انسانوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے۔ غزہ کا علاقہ اس وقت عملاً کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اور خواتین بچوں سمیت اسرائیلی بمباری اور زمینی حملوں سے شہید ہونیوالوں کی لاشیں اس علاقے میں جابجا بکھری نظر آتی ہیں جنہیں دفنانے کیلئے بھی جگہ کم پڑ گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حملوں سے اب تک پانچ ہزار سے زائد فلسطینی باشندے شہید ہو چکے ہیں اور زخمی ہونیوالے ہزاروں باشندوں کی بے بسی اور کسمپرسی دیکھی نہیں جاتی جنہیں نہ ادویات دستیاب ہیں نہ خوراک۔ اور غزہ کے ہسپتال تباہ ہونے کے باعث زخمی اور انکے لواحقین کھلے آسمان تلے پڑے خدا تعالیٰ اور اپنے مسلمان بھائیوں کو مدد کیلئے پکاررہے ہیں۔ بھوک‘ پیاس کا شروع ہونیوالا انسانی المیہ پورے غزہ میں پھیل چکا ہے جہاں فی الحقیقت کربلا بپا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اقوام عالم میں ان مظلوموں کیلئے انسانیت کی تڑپ بھی نظر نہیں آرہی اور ظالم اسرائیل کے ہاتھ روکنے کے بجائے امریکہ‘ برطانیہ اور انکے حلیف دوسرے یورپی ممالک اس کی پشت پر کھڑے ہوگئے ہیں جس کی غزہ میں جاری بربریت کی نہ صرف اسے تھپکی دے کر حوصلہ افزائی کی جارہی ہے بلکہ اسے جنگی سازوسامان کی شکل میں کمک بھی فراہم کی جارہی ہے۔ امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم نے تو باقاعدہ طور پر اسرائیل جا کر اسرائیلی فوج کے حوصلے بڑھائے اور غزہ میں اسکے حملوں کو جائز قرار دیا۔ مسلم دنیا کو تو اسرائیلی بربریت پر جیسے سانپ سونگھا ہوا ہے جس کی قیادتوں اور نمائندہ تنظیم او آئی سی کی جانب سے محض رسمی مذمتی بیانات اور قراردادوں کے سوا کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا جبکہ اسرائیلی بربریت پر نمائندہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ بے بسی کی چادر اوڑھے بیٹھا ہے جس کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کی مذمت اور اسکے حملے رکوانے کیلئے روس کی پیش کردہ قرارداد کی منظوری تک کی نوبت نہیں آنے دی گئی۔ چنانچہ اسرائیل کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ غزہ میں مساجد کے ساتھ ساتھ گرجا گھروں کو بھی وحشیانہ بمباری کے ذریعے ادھیڑ اور مسمار کررہا ہے۔ گزشتہ روز اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں ایک چرچ اور مسجد پر بیک وقت بمباری کی جس کے نتیجہ میں درجنوں فلسطینی باشندے شہید ہو گئے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اپنے جنگی جنون میں کس طرح عالمی جنگی قوانین و اخلاقیات اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اس صورت حال میںاسرائیل اور اسکے سرپرستوں امریکہ اور برطانیہ کی مسلم دنیا کیخلاف جنونیت بالآخر پوری دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل دیگی کیونکہ فلسطینیوں کے بہائے جانیوالے خونِ ناحق پر بالخصوص مسلم دنیا آخر کب تک خاموشی اور مصلحتوں کی چادر اوڑھے بیٹھی رہ سکتی ہے۔ اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی و معاونت حاصل ہونے کے بعد یقیناً مشرق وسطیٰ‘ عرب ریاستوں اور جنوبی ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا میں انسانی بقاءکے حوالے سے بے چینی بڑھ رہی ہے۔ چین اور روس کو بھی اسی تناظر میں خطے کے امن کی فکر لاحق ہے جو علاقائی اور عالمی فورموں پر اسرائیلی بربریت کا سلسلہ رکوانے کیلئے کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں جبکہ مسلم دنیا میں ایران‘ ترکیہ پہلے ہی فلسطینیوں کی عملی امداد و معاونت کی حکمت عملی طے کر چکے ہیں چنانچہ سعودی عرب سمیت عرب ریاستیں بھی بالآخر فلسطینیوں کی حمایت میں عملیت پسندی کی جانب آجائیں گی۔ سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ جاری امن مذاکرات معطل کرنا‘ اسکی جانب سے فلسطین کیلئے عملی کردار کا ہی عندیہ ہے جبکہ پاکستان عملی کردار کیلئے سعودی عرب کی جانب دیکھ رہا ہے جو اسکے فیصلے پر لبیک کہے گا۔ چنانچہ اسرائیلی بربریت کا سلسلہ تادیر جاری نہیں رہ سکتا۔ مسلم دنیا بھی انگڑائی لے گی اور مظلوم فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر انکے آزاد وطن کی جدوجہد میں شریک ہوگی تو یقیناً یہ معرکہ حق و باطل ہوگا جس کا راستہ الحادی قوتیں اسرائیل کو ہلاشیری دیکر خود ہموار کررہی ہیں۔ 
اسرائیلی مظالم کیخلاف جمعة المبارک کو مسلم دنیا سمیت دنیا بھر میں یوم دفاعِ غزہ و شہدائے فلسطین منایا گیا جس کے دوران احتجاجی جلسوں‘ جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور اسرائیلی مظالم کیخلاف انکے ساتھ عملی طور پر کھڑا ہونے کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان میں تمام مکاتب فکر‘ متحدہ علماءکونسل اور ورلڈ پاسبان ختم نبوت کی جانب سے کئے گئے احتجاجی مظاہروں میں اسرائیل کے پرچم بھی نذر آتش کئے گئے اور بے گھر فلسطینیوں کو سہارا دینے کیلئے امدادی کیمپ بھی لگائے گئے جو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا صائب اقدام تھا۔ آج اسرائیلی جنگی جنونیت کو ٹھوس انداز میں روکنے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ ہمارے خطے میں مظلوم کشمیری عوام بھی گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ اپنے حق خودارادیت کی جدوجہد میں بھارتی مظالم برداشت کر رہے ہیں جن کی بے مثال قربانیوں کا سلسلہ آج بھی بھی جاری ہے۔ ایسے مظالم پر آج اسرائیل کے حوصلے امریکی سرپرستی میں بلند ہو رہے ہیں تو کل کو بھارت بھی الحادی قوتوں کے آلہ کار کے طور پر خطہ کشمیر کو ملیامیٹ کرنے کا سوچے گا اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے جارحانہ اقدامات مزید آگے بڑھائے گا۔ اس تناظر میں اس خطہ میں پاکستان‘ چین، روس کی شکل میں طاقت کے ایک نئے بلاک کی جتنی آج ضرورت ہے‘ شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔

ای پیپر-دی نیشن