اتوار‘ 6 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 22 اکتوبر 2023ئ
نواز شریف کے استقبال کے لیے آنے والوں کی بھرپور ناشتے اور کھانوں سے آﺅ بھگت
آخر بڑے عرصے بعد میاں جی آ گئے ہیں تو یہ سب کچھ تو پارٹی لیڈروں کو کرنا ہو گا۔
بڑے عرصہ بعد ایک بار مسلم لیگ (نون) والوں کو ناشتے اور کھابوں کی طرف توجہ دینا پڑی۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تو انہوں نے قسم کھائی تھی کہ نہ کسی سے ملنا ہے نہ کسی کو کبھی چائے پینے کا پوچھنا ہے۔ سچ کہیں تو ”چمڑی جائے دمڑی نہ جائے“ والی حکایت سچ ثابت کر دی تھی۔ مگر جیسے ہی میاں نواز شریف نے دبئی سے پاکستان کی طرف رخت سفر باندھا۔ ان کے کوچ کی نوبت بجی۔ ہر طرف رنگ برنگے ناشتوں اور مزیدار پکوانوں کی خوشبو پھیل گئی دیگیں کھل گئیں۔ چلو اس طرح بہت سے غریب کارکنوں کو کم از کم ایک دن پیٹ بھر کر ناشتہ وہ بھی حلوہ پوڑی، پراٹھے ،چنے انڈے کوفتے اور روغنی نان کے ساتھ نصیب ہوا صرف یہی نہیں دوپہر کو زبردست پرتکلف کھانا جسے کھابہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ استقبالیہ کیمپوں پر دستیاب تھا جس میں روایتی مرغ بریانی اور قیمے والے نان سرفہرست تھے۔ واہ قربان جائیے اس مولائے کریم کی شان پر جو کہاں کہاں سے غریبوں کو ان کا حق نہ دینے والوں کی جیبوں سے بھی ان کا حصہ نکالنے کے مواقع پیدا فرماتا ہے۔ خدا کرے یہ سلسلہ جاری رہے۔ اسی طرح سیاستدانوں کی آنیاں جانیاں لگی رہیں اور غریبوں کو بھی مزے اڑانے کا موقع ملتا رہے۔ کھابوں کا سلسلہ بھی مسلم لیگ نے سیاست میں رائج کیا، پیپلز پارٹی نے اس میں چھینا جھپٹی کے کلچر کو فروغ دیا۔ باقی جماعتوں نے فی الحال کارکنوں کو اتنا سر نہیں چڑھایا۔ ہاں البتہ تحریک انصاف والوں نے اس میں جدت پیدا کی اور کھلے عام لنگر کے نام پر ان کے سیاسی و احتجاجی کیمپوں میں ناشتے ، کھانے اور چائے کا سلسلہ سب سے زیادہ ہوتا تھا اور سب مزے لے لے کر دن رات وہاں بقول غالب
مئے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
اک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
والی کیفیت جاری رہتی تھی۔ مذہبی جماعتیں تو ثواب کے نام پر بھی صرف سموسوں اور چائے پر ٹرخاتی ہیں وہ بھی بزور طاقت رش میں چھین کر حاصل کرنا پڑتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بنگلور میں پولیس نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں کو روک دیا
یہ تو بری حرکت ہے۔اگر پاکستان کا نا م لینے سے کسی کو اتنی ہی چڑھ ہے تو وہ میچوں سے قبل پاکستانی پرچم لہرانے اور باآواز بلند پاکستانی ترانہ پڑھنے پر بھی روک لگائے یوں ہی پاکستانی شائقین پر رعب ڈال کر بے عزت نہ ہو۔ پاکستانی
پہلے ہی آسٹریلیا کے ہاتھوں میچ میں شکست کے صدمے سے مشتعل ہیں اس کا اندازہ سوشل میڈیا پر چلنے والے پیغامات اور بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ سچ کہیں تو پوری قوم کو بہت افسوس ہے۔ غصہ اس بات پر زیادہ آ رہا ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم نے گزشتہ روز کے پاکستان کے خلاف میچ میں کیسے کیچ پکڑے۔ اس سے پہلے کھیلے گئے میچوں میں تو آسٹریلیا کے ٹیم کے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں سوراخ تھے کہ ایک بھی کیچ نہیں پکڑ سکتے۔ اکثر ڈراپ کئے۔ اسی طرح فیلڈنگ میں بھی ان کم بختوں نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ کسی پاکستانی کو ہلنے نہیں دینا چوکے چھکے تو دور کی بات ہمارے کھلاڑی بڑی مشکل سے ایک یا دو رنز بنا پاتے تھے۔ اوپر سے 368 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف دیا ملا وہ بھی ایسے میدان میں جہاں ہماری ٹیم حامی تھے ہی نہیں جو تھے بہت کم تھے۔ اوپر سے بدذات قسم کا بھارتی پولیس والا ایک پاکستانی سے بھی ا±لجھ پڑا جو پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ اس پاکستانی نے اس کی طبیعت توخوب صاف کی اور کہا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں میں کیوں پاکستان زندہ باد کے نعرے نہ لگاﺅں آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے۔ یہ ویڈیو وائرل بھی ہوئی اس کے باوجود ایک اور بات بھی اچھی لگی کہ سٹیڈیم میں بہت سے ہندوستانی پاکستان کے کھلاڑیوں کو داد دیتے نظر آئے۔ زبانیں بے شک خاموش تھیں مگر دل اور نگاہیں سب کچھ تیار ہی تھیں کہ ان کی ہمدردی پاکستان کے ساتھ ہے۔ بہرحال ابھی 6 میچ باقی ہیں۔ بس ذرا کپتان کو دیکھ کر کمزوری محسوس ہوتی ہے جو بابر بنتے بنتے بہادر شاہ ظفر بنتے نظر آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
40 دن کے چلے پر گیا تھا۔ شیخ رشید کی میڈیا پر رونمائی
بڑے دل گردے کی بات ہوتی ہے۔ چلہ کشی۔ کبھی کنویں میں الٹا لٹک کر ، کبھی ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر کبھی غار میں بھوکے پیاسے رہ کر راہ حق کی تلاش کا سفر سب کے بس کی بات نہیں ہوتا بڑے بڑے ان روحانی مشکلات سے بھرے سفر میں پہلے ہی قدم پر لڑ کھڑا جاتے ہیں۔ کئی دوسرے اور تیسرے درجے پر ہی مجذوب ہو جاتے ہیں۔ مگر آفرین ہے شیخ رشید پر کہ 40 دن کامیابی سے گزار کر آنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اس چلہ میں چلو انہیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ وہ جس راہ پر چل رہے تھے وہ غلط تھی۔ جس کا دامن تھام یہ منزل کی جستجو میں نکلے تھے وہ تو منزل ہی سے بھٹکا رہا تھا۔ اب تو شیخ جی لگتا ہے کچھ زیادہ ہی توبہ تائب ہو گئے ہیں ٹی وی چیلنز پر چلنے والی سرخیوں کے مطابق اب تو وہ (جس 9 مئی کو نوید انقلاب کہتے تھے) اس کی مذمت جمعہ کے خطبات میں کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ یہ ہوتی ہے زندہ کرامت اسے کہتے ہیں نجات کی منزل۔ اس چلہ کشی نے ویسے شیخ کی صحت پر کچھ خاص اثر نہیں ڈالا۔ وہ اس طرح صحت مند اور ہشاش بشاش تھے۔ اس سے لگتا ہے یہ کوئی روحانی چلہ نہیں تھا جس میں نفس کشی کی جاتی ہے یہ تبلیغی قسم کا چلہ تھا جس میں قیام و طعام کی مناسب سہولت عام ہوتی ہے۔ اب وہ اپنے سابق رہنما کو ضدی کہیں یا بددماغ ان کی اداروں سے جنگ کے بیانیہ سے اپنا دامن بچانے کے لیے خود کو ستی ساوتری ثابت کریں مگر میڈیا الیکٹرانک ہو یا پرنٹڈ شیخ کی سگار منہ دبائے یا ہتھکڑی ہاتھوں میں اٹھائے خونی انقلابی نعروں اور بیانات سے بھرے ہیں ان کی صفائی میں وہ خود کو بری الذمہ قرار دے کر اب سارا الزام کپتان پر لگا کر کیا شرمساری محسوس نہیں کریں گے۔
٭٭٭٭٭
طاہر اشرفی، وزیر اعظم کے خصوصی معاون مقرر
یہ ہوتی ہے قسمت یا کہہ لیں بعض لوگ قسمت کے دھنی ہوتے تھے۔ طاہر اشرفی میں غالباً دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں پہلے وہ سب نے دیکھا ہے کتنے تن و نوش کے مالک تھے۔ پھر یہ بھی سب نے دیکھا کہ وہ سمارٹ ہو گئے کہاں چلنا دوبھر تھا کہاں اب جابجا بھاگتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اوپر سے ان کی عربی دانی کا شہرہ بھی ہے۔ تمام عرب ممالک میں وہ اپنی اسی صلاحیت کے باعث خاصے مقبول بھی ہیں اور ہمارے باقی علما کا تمام تر دعو?ں کے باوجود ”زبان یارمن ترکی ومن ترکی نمی دانم“ والا حال ہے۔ یا پھر ان کی قسمت یاوری نہیں کرتی۔ طاہر اشرفی ہر دور کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی یوں بنتے ہیں گویا یہ عہدہ تخلیق ہی ان کے لیے ہی ہوا ہے۔
اب موجودہ نگران وزیراعظم نے بھی انہیں یہی عہدہ دے کر حکومت میں شامل کر لیا ہے۔ اس لیے ہم انہیں مبارکباد ہی دے سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ وہ ہماری درخواستیں اور مطالبات اس حسن و خوبی کے ساتھ عرب حکمرانوں تک پہنچایا کریں جس طرح پہنچانے کا حق ہے اور پہلے بھی وہ یہ کام حسن و خوبی سے کرتے آئے ہیں۔ ویسے بھی ہمیں ایسے ہی عربی، انگریزی ، جرمن، فرانسیسی ، چینی ،جاپانی و روسی بولنے والے معاونین کی اشد ضرورت رہتی ہے جو ان ممالک میں ہماری صحیح ترجمانی کریں جہاں ہم جا کر دست بدبستہ درخواستیں اور عرضیاں پیش کر کے ان کے جواب کے منتظر رہتے ہیں۔ اگر ان کے ہم زبان ہی یہ کام کریں تو زیادہ احسن طریقے سے ہمارا کام ہو سکتا ہے۔