سرزمینِ غزہ لہو لہو
بظاہر تو عرب اسرائیل تنازعہ اب فلسطین اسرائیل تنازعے میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے لیکن معاملے کو اگر وسیع تر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تنازعہ ارضِ فلسطین میں واقع مقدس مقامات پر تین الہامی کتابوں کے پیروکاروں کے مابین حقِ وراثت کے دعووں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ امریکی صدر جمی کارٹر اپنی کتاب 'Palestine Peace Not Apartheid' میں رقمطراز ہیں:
"The blood of Abraham, God's father of the chosen, still flows in the veins of Arab, Jew, and Christian, and too much of it has been spilled in grasping for the inheritance of the revered patriarch in the Middle East. The spilled blood in the Holy Land still cries out to God—an anguished cry for peace".
دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی دامے درمے سخنے مدد کرنے کا ثمر یہودیوں نے 1948 میں آزاد وطن کی صورت میں پایا اور اتحادیوں کے حریف خلافت عثمانیہ کے زیرِ اثر مسلمان زیرِ عتاب آ گئے۔ اسرائیل چونکہ فلسطینیوں کی زمینیں ہتھیا کر معرض وجود میں آیا تھا اِس لئے اس کے ظلم و ستم کا شکار زیادہ تر فلسطینی بنے۔ 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ میں ہزیمت اٹھانے پر عرب دوبارہ جنگ لڑنے کے متحمل نہ ہو سکے۔ حالات کے جبر کی وجہ سے چار عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ کچھ اور عرب ممالک بھی ایسا کرنے کے لئے کسی مناسب گھڑی کے انتظار میں تیار بیٹھے تھے کہ حماس کے حریت پسندوں کی طرف سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونیوالے اچانک حملے نے نظریہءضرورت پر منحصر اِس بے جوڑ رومانس کو کسی نئی داغدار طلوعِ صبح تک موخر کر دیا.حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے وحشیانہ بربریت پر استوار رد عمل غیر متوقع ہرگز نہیں تھا۔ اسرائیل کے فضائی اور میزائل حملوں میں اب تک 3700 سے زائد نہتے فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ امریکی شہہ پر یہ سلسلہ بظاہر مستقبل قریب میں رکتا نظر بھی نہیں آ رہا۔ آج غزہ کی پٹی لہو لہو ہے۔ سر زمینِ انبیا میں خون کے آنسو نہیں، خون کی ندیاں بہہ رہی ہے۔ بے یارو مددگار فلسطینی گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ کوئی ان بے چاروں کا چارہ گر نہیں، کوئی ان لاوارثوں کا وارث بننے کیلئے تیار نہیں، کوئی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے تیار نہیں اور کوئی ا?ن کو دلاسہ و پرسَہ دینے کیلئے دستیاب نہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی تقلید میں یورپ اور انکے زیر اثر ممالک، جن میں بھارت بھی شامل ہے، اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آ رہے ہیں جبکہ مسلمان ممالک کی جانب سے ابھی تک زبانی کلامی جمع خرچ ہو رہا ہے۔ حماس کے حملے کی خبر پاتے ہی امریکی مسلح بحری بیڑہ اسرائیل پہنچ گیا تھا۔ رہی سہی کسر اسرائیل کے دورے کے موقع پر امریکی صدر نے اسے کلین چٹ دے کر اور بعدازاں قوم سے خطاب کرکے پوری کر دی۔ غزہ کے الاہلی ہسپتال پر حملہ کرکے پانچ سو سے زائد بے گناہ شہریوں کو شہید کرنے پر بھی اسرائیل کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا، نام نہاد آزاد میڈیا کی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ امریکی نیوز نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے تین ممتاز مسلمان اینکرز مہدی حسن، علی ویلشی اور ایمن محی الدین کے شوز معطل کر دیے ہیں جبکہ برطانوی اخبار نے اسرائیلی وزیراعظم کا خاکہ بنانے والے کارٹونسٹ اسٹیو بیل کو نوکری سے برطرف کردیا۔
عرب ممالک میں اردن، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیلی حملوں پر مذمتی بیان جاری کئے ہیں۔ اسلامی ممالک کی طرف سے کوئی ٹھوس رد عمل نہ آنے کی وجہ سے ظلم و استبداد اور فرعونیت پر مبنی اسرائیلی سوچ ساتویں آسمان پر جھوم رہی ہے۔ اسرائیل بمباری سے تباہ حال فلسطینیوں کو جنوب کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ بہت سے فلسطینی اسرائیل کی جانب سے حماس کے خلاف متوقع زمینی حملے سے بچنے کیلئے پہلے ہی شمالی غزہ چھوڑ چکے ہیں۔
ایران کی فلسطینیوں کیلئے ہمدردی کے جذبات و احساسات بھی اسرائیل اور اس کے حواریوں کی نازک طبع پہ گراں گزر رے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی طرف سے اس اعلان کے بعد کہ "اگر غزہ میں اسرائیل کے 'فلسطینیوں کیخلاف جنگی جرائم' بند نہ ہوئے تو 'مزاحمتی فورس' اگلے چند گھنٹوں میں 'پیشگی کارروائی' کر سکتی ہے"، فرانس کے صدر نے ایرانی ہم منصب کو فون کرکے اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈو نے، البتہ، ہسپتال پر حملے کی فوری تحقیقات کے ساتھ ساتھ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتیریز نے بھی فوری طور پر 'انسانی بنیادوں پر جنگ بندی' کا مطالبہ دہرایا ہے مگر یہ مطالبہ بھڑکے ہوئے الاو¿ پر بلبل کی چونچ سے گرنے والا پہلا قطرہ بھی ثابت نہ ہو سکا۔ نقارخانے میں بھلا طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ حماس نے بھی فوری جنگ بندی کے عوض 203 میں سے کچھ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے کی آفر کی ہے۔امریکی اور برطانوی وزراءخارجہ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والوں کیلئے رفح غزہ کراسنگ کھلوانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق "غزہ پر بمباری کے بعد وہاں سے قریباً 10 لاکھ فلسطینیوں نے نقل مکانی کی ہے جنھیں 'فوری مدد' کی ضرورت ہے"۔ ان کی کسی کو فکر نہیں۔ البتہ جمعہ کو غزہ کیلئے امداد کی پہلی کھیپ کے 20 ٹرک مصر کی رفح کراسنگ سے آج غزہ کیلئے روانہ گئے ہیں.
اسرائیل کی طویل المدتی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ فلسطینی علاقے ہڑپ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بامقصد مذاکرات اور با عزت تصفیہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب فریقین برابر کی ٹکر کے ہوں۔ جب تک مسلمان ممالک بالعموم اور عرب ممالک باالخصوص اپنے اختلاف پَسِ پشت ڈالتے ہوئے سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے، نیز سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی برابری کی سطح پر نہیں پہنچ جاتے تب تک دنیا میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح ہی بہتا رہے گا.
٭....٭....٭