ایس ایم ظفر کی یادوں کے چراغ
معروف قانون دان، سیاستدان، پارلیمنٹیرین ،انسانی حقوق کے علمبردار،نامور دانشور،رائٹر ڈاکٹر ایس ایم ظفر رضائے الہٰی سے انتقال کر گئے۔
انا للہ وانا علیہ راجعون
ان کی یادیں میرے دل و دماغ پر ثبت ہیں۔ وکالت کے شعبے میں وہ مجھ سے آٹھ نو سال سینئر تھے۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے اور ہمیشہ میری رہنمائی ہفتے تھے۔
بحیثیت وکیل میں ان کا بہت معتقد تھا۔فنِ وکالت ان پر ختم تھا۔وہ ہمیشہ بڑے تحمل اور بردبادی سے اپنا مقدمہ منطقی انداز میں پیش کرتے تھے۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ عدالت کوئی بھی ہو سپریم کورٹ، ہائی کورٹ یا لوئر کورٹ نے انہیں غور سے سنا نہ ہو۔
کئی اہم مقدمات میں اعلیٰ عدلیہ نے انہیں بطور (Amicus curiae)معاون دوست عدالت طلب کرتی تھی۔ظفر علی شاہ کیس میں بھی ان سے معاونت لی گئی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھے حسن اخلاق سے نوازا۔فتح و کامیابی ان کے قدم چوما کرتی تھی۔
1976ءمیں ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کے ادارے کی بنیاد رکھی۔جس میں مجھے بھی بطور ایک ادنیٰ رکن مدعو کیا گیا۔
ڈاکٹر اے کیو خان کے خلاف جب ہالینڈ کی حکومت نے مقدمہ درج کیا اور ان کی عدم موجودگی میں تین سال قید کی سزا سنادی گئی تو (مرحوم) ایس ایم ظفرکو بطور سینئر وکیل مقرر کیاگیا۔ کئی لوگوں کی کوشش تھی کہ ایس ایم ظفر حکومت کی طرف سے وکیل نہ مقرر کیا جائے۔ اسکی وجہ یہ دی گئی کہ وہ ایک قانون دان ہی نہیں بلکہ سیاستدان بھی ہیں۔لہٰذا اٹامک انرجی کے راز فاش ہونے کا امکان ہے۔ بالآخر تمام سازشیں انکے خلاف کامیاب نہ ہو سکیں۔ اور ان کووکیل مقرر کیا گیا اور پیشہ ورانہ منہ مانگی فیس بھی دی گئی۔میں اس زمانے میں حکومت پاکستان کا سیکرٹری لاءاور پالیمینٹری افیئرز تھا۔ایسے معاملات لا منسٹری میں ہی پروسیس ہوتے تھے۔
اسی طرح ظفر علی شاہ کیس میں بھی محترم ایس ایم ظفر کو (Amicus curiae)معاون دوست عدالت طلب کیا گیا۔انہوں نے یہ رائے بھی دی کہ اگر جنرل مشرف کی حکومت کو عدالت Validate کرنا مناسب سمجھتی ہے تو جنرل مشرف کو یہ حکم صادر کیا جائے کہ وہ جلد از جلد انتخابات کرائیں۔ جمہوری ادارے فوری بحال کرائیں اور فوجی بیرکوں میں واپس جائیں۔
سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ مشہور کیس میں گیارہ رکنی بیچ نے سماعت کی۔ جس کی صدارت کا اعزاز مجھے ملا۔ ایس ایم ظفر کی تجویز سے متفقہ طور پر اتفاق کرتے ہوئے یہی حکم صادر فرمایا۔ جس کے نتیجے میں جمہوری ادارے بحال ہوئے۔
الیکشن ہوئے جس میں تمام سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا۔ ظفر علی شاہ کیس کی بدولت ہی کئی الیکشن ہوئے اور ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آج بھی قائم ہے۔
(مرحوم) ایس ایم کو پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹریم کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔1975ءمیں صدر لاہور ہائی کورٹ بار منتخب ہوئے۔19چ76ءمیں سپریم کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے۔جنرل مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق کے سینیٹر منتخب ہوئے۔جنرل ایوب کے دور میں پاکستان کے لاءمنسٹر رہے۔پگاڑا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے۔ 2006ءمیں پاکستان مسلم لیگ قائد گروپ میں شامل ہوئے تھے۔2012ءتک سینیٹر رہے۔ 1076ءمیں ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کے صدر رہے۔یہ سوسائٹی بدستور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کے نامور سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بریت کا سہرا بھی انہی پر ہے۔ وہ تقریباً 6 دہائیوں تک قانونی پیشے سے منسلک رہے۔ 18ویں آئینی ترمیم میں بھی انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی انسانی حقوق کی علمبرداری اور قانون کی حکمرانی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ ایک عظیم مصنف بھی تھے۔ انہوں نے بے شمار کتب بھی تحریر کیں۔
2012ءمیں مرحوم کو نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ وہ ایک عظیم دوست قانون دان، دانشور تھے۔ وہ اپنے بیوی ، بچوں اور پوتے پوتیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ اوربڑے اخلاق کے ساتھ ان کے ساتھ پیش آتے تھے۔ میرا ان کے گھر اکثر آنا جانا تھا۔ اور بیماری سے پہلے وہ بھی میرے گھر تشریف لائے تھے۔ ہماری آپس میں بہت بے تکلفی تھی۔ہم ایک طرح سے پڑوسی بھی تھے نہر کے ایک طرف ان کا دوسری طرف میرا گھر ہے۔انہوں نے میری سوانح عمری ”ارشاد نامہ“ کتاب پر اپنے خیالات کا کھل کر مثبت تبصرہ کیا۔ارشاد نامہ پر سو سے زیادہ آرٹیکل لکھے اکثر ایس ایم ظفر کا تذکرہ کیا ہے۔
قوم ایک نامور قانون دان اور سیاستدان سے محروم ہو گئی ہے۔ میرا ایک عظیم دوست اور ہمسایہ مجھ سے جدا ہو گیا۔ میں ان کے یادوں کے چراغ جلا کر بیٹھا ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
٭....٭....٭