• news

سائفر کیس: عمران، شاہ محمود پر فرد جرم عائد، جیل ٹرائل کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ وقائع نگار) آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کر دی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہوں کو طلب کرتے ہوئے سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی روکنے کے لئے چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کی جانب سے درخواست دائر کی گئی جو عدالت نے مسترد کر دی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو مبارک ہو مینڈیلا واپس آ گیا۔ عدالت نے سائیکل فراہمی کی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست منظور کر لی اور شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ چارپائی مل گئی؟ جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جی چارپائی مل گئی ہے۔ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف چارج شیٹ سامنے آگئی ہے۔ جس کے مطابق دونوں ملزم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعہ پانچ اور نو کے تحت ملزم ٹھہرائے گئے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم غیر قانونی طور پر سائفر اپنے پاس رکھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکرٹ دستاویز کو ممنوع مقام جلسے میں غلط طریقہ کار سے استعمال کیا۔ سائفر کی خفیہ معلومات کو غیر ضروری افراد تک پہنچایا۔ چیئرمین پی ٹی آئی ریاست کے مفاد کے خلاف معلومات استعمال کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ وزارت خارجہ نے اعتماد کرتے ہوئے سائفر چیئرمین پی ٹی آئی کو فراہم کیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر اپنے پاس رکھتے ہوئے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس عمل سے ملک کے سکیورٹی سسٹم پر کمپرومائز کیا۔ دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی مقدمہ میں ایک سے زیادہ ملزم ہیں اور کسی ایک ملزم کی حد تک جیل ٹرائل کا آرڈر ہوا تو وہ کافی نہیں؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک نیا نوٹیفکیشن بھی ہو گیا ہے 13 اکتوبر کو جیل ٹرائل کا، وہ پراسیکیوٹر نے دائر کرنا تھا مگر وہ ابھی ٹرائل کے لئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے علی بخاری سے استفسار کیا کہ آپ نے 13 اکتوبر والا نوٹیفکیشن دیکھا ہے؟۔ علی بخاری نے کہا کہ جیل ٹرائل سکیورٹی کے لئے ہوتا ہے مگر اس میں اہل خانہ کو ٹرائل سننے کی اجازت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس ہے یا کوئی قانون بھی موجود ہے اس سے متعلق؟۔ ہم جیل ٹرائل اور ان کیمرہ پروسیڈنگ کو آپس میں مکس کر رہے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ ابھی ان کیمرہ پروسیڈنگ کا کوئی آرڈر نہیں ہوا۔ جیل ٹرائل میں پریذائیڈنگ افسر کے بہت اختیارات ہوتے ہیں۔ پریذائیڈنگ افسر ریکوئسٹ نہیں، آرڈر کر سکتا ہے جیل سپرنٹنڈنٹ کو۔ شاہ محمود کے خلاف تین سے تیرہ تاریخ تک کی تمام عدالتی کارروائی غیر قانونی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فرض کریں کہ نیا نوٹیفکیشن نہیں ہوا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر لکھا گیا، کیا اس صورت میں دو ملزمان کے دو الگ ٹرائل ہوں گے؟۔ آپ نے جیل ٹرائل میں کوئی سماعت اٹینڈ کی ہے؟۔ وکیل نے کہا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹرائل کے لئے عدالت لگائی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اڈیالہ جیل میں جگہ اتنی کم پڑ گئی ہے؟۔ کسی ملزم کو اپنے وکیل سے مشاورت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ملزم کی فرد جرم سے قبل وکیل سے مشاورت کی اجازت ہونی چاہئے۔ وکیل نے کہا کہ جیل میں سماعت کے وقت جگہ بھی بہت کم ہوتی ہے۔ علی بخاری نے کہا کہ بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا جیل سماعت کے کمرے میں بمشکل دو چار لوگ ہی بیٹھ سکتے ہیں۔ ٹرائل کے لئے ایک پنجرہ نما کمرہ ہے جس میں زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ٹرائل چلنا ہے اور اگر جیل میں چلنا ہے تو بہتر جگہ ہونا چاہیے، یہ ایک دن کی تو بات نہیں، ٹرائل چلنا ہے، شہادتیں ریکارڈ ہونی ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دو ملزمان کا ٹرائل ہے تو وہ ایک ہی جگہ ہونا ہے، یہ عدالت جیل ٹرائل کو درست قرار دے چکی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن