نوازشریف کی سیاست کا نیا رخ
اپنی قید کے چار سال لندن اور عرب ریاستوں کے پرتعیش ماحول میں گذارنے کے بعد وطن واپس لوٹنے والے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے مینار پاکستان کے جلسہ میں شرکاءکی تعداد کے حوالے سے تو میں اگلی سطور میں بات کروں گا مگر کالم کی ابتداءمیں مجھے ان سیاسی پہلوﺅں اور پیغامات کا تذکرہ کرنا ہے جو مینار پاکستان کے جلسے میں کی گئی انکی تقریر اور اسکے اگلے روز جاتی امراءمیں انکی سیاسی سرگرمیوں سے اجاگر ہوئے ہیں۔
میاں نوازشریف جب 2017ءمیں پانامہ کیس میں ”اقامہ“ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ کے تین‘ دو کے فیصلہ کے تحت قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ سے تاحیات نااہل ہو کر اقتدار سے باہر آئے تو انہوں نے راولپنڈی سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور تک اپنے لانگ مارچ کے دوران شدومد کے ساتھ یہ سوال اٹھایا کہ ”مجھے کیوں نکالا“۔ انہیں اس سوال کا جواب 2018ءکے انتخابات میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزائے قید کی صورت میں ملا۔ وہ اس وقت لندن میں اپنی کینسر زدہ اہلیہ کی تیمارداری کررہے تھے جبکہ انکی پارٹی 2018ءکے انتخابات کی مہم کیلئے ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ زور شور سے استعمال کر رہی تھی۔
اس سٹیج تک آنے سے پہلے میاں نوازشریف اپنے اقتدار کے کن مراحل سے اور کیسے گزرے‘ یہ سب میری آنکھوں کے سامنے کے واقعات ہیں۔ تحریک استقلال کے ایک ”گم صم“ صوبائی نائب صدر کا یکایک پنجاب کی ایک اہم وزارت‘ پھر اس صوبے کی وزارت اعلیٰ اور اسی دوران پیپلزپارٹی کے مقابلہ کیلئے تشکیل پائے اپوزیشن اتحاد آئی جے آئی کی صدارت اور پھر اسی کے وسیلے سے 1990ءمیں وزارت عظمیٰ تک پہنچنا ایک تاریخ ہے جو 80ءاور 90ءکی دہائی کے دوران کی پروان چڑھنے والی ہماری اس وقت کی نئی نسل کو یقیناً ازبر ہو چکی ہو گی۔ اور اس ناطے سے اقتدار کی غلام گردشوں اور اسکے مہروں سے بھی خوب آشنائی ہو چکی ہو گی۔ اسکی تفصیلات کو کریدنے کے بجائے میں 1993ءمیں میاں نوازشریف کی بطور وزیراعظم اپنے اقتداری ستونوں کے ساتھ کی گئی ”بغاوت“ سے ان کی اب تک کی سیاست کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ انہیں 93ءوالی بغاوت کا راستہ کس نے سجھایا‘ یہ بھی مفصل بحث طلب معاملہ ہے۔ اس وقت عرفان صدیقی صاحب کی مشاورت تو یقیناً انکے شامل حال نہیں تھی‘ اقتدار کی غلام گردشوں میں سے ہی کوئی معاملہ بنا تھا مگر انہوں نے براہ راست اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ متھا لگایا جس نے انکی انگلی پکڑ کر انہیں اقتدار کے زینے تک پہنچایا تھا۔ اس ناطے سے ان کا سیاسی تشخص اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے حوالے سے ابھرنا شروع ہوا جس کی پہلے عوامی مقبولیت کی حامل پیپلزپارٹی اور بائیں بازو کی بعض غیرمقبول سیاسی جماعتیں داعی ہوا کرتی تھیں۔ چنانچہ ان غیرمقبول جماعتوں کی قیادتوں نے بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کیلئے میاں نوازشریف کے ساتھ توقعات وابستہ کرلیں۔ میاں نوازشریف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں اقتدار کی غلام گردشوں کے ساتھ الجھ کر براہ راست سپریم کورٹ سے ریلیف چاصل کیا۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بحال ہوئے مگر پھر ”بندوبستی حکمت عملی“ کے زیردام آکر ایک ماہ بعد خود اسمبلی توڑنے کی راہ پر آگئے جس میں انہوں نے قربانی صدر غلام اسحاق خان اور اس وقت کے آرمی چیف کی بھی لے لی۔ اس بندوبستی حکمت عملی کی بنیاد پر ہی 1993ءمیں انتخابات کے ذریعے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہوئی اور میاں نوازشریف کمبائنڈ اپوزیشن کے قائد بن گئے اور بے نظیر بھٹو کیخلاف ”جہازی“ اشتہار بازی کی عامیانہ سیاست کو فروغ دینے کے موردالزام ٹھہرے۔ بعدازاں انکی پارٹی کی جانب سے اس سیاست کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ کے سر تھوپا جاتا رہا مگر اسی سیاست کے طفیل انہیں 1997ءکے انتخابات میں دوتہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل ہوئی جس کے بل بوتے پر انہوں نے سپریم کورٹ کے ساتھ بھی متھا لگایا‘ بیک جنبش قلم اس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت کو بھی انکے منصب سے فارغ کیا اور صدر لغاری کو بھی اقتدار سے فراغت کا راستہ دکھا دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ بھی انکی اسی سیاست کی بھینٹ چڑھے جنہیں یوم حمید نظامی کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی کی گئی اپنی تقریر کے بعد دلیری دکھانے کے مزید ہمت ہوئی تھی۔ میں سید سجاد علی شاہ کی یہ تقریر لکھنے کا سزاوار ہوں۔ وہ سپریم کورٹ میں اپنے برادر ججوں کے ہاتھوں ہی سزاوار ٹھہرے اور چیف جسٹس کے منصب سے بھی ججز سنیارٹی کیس کے اپنے ہی فیصلہ کی بنیاد پر محروم کردیئے گئے اور پھر میاں نوازشریف اپنی دلیری کو مزید آگے بڑھاتے بڑھاتے جنرل مشرف کو آرمی چیف کے منصب سے فارغ کرنے اور اپنی مرضی کا آرمی چیف تعینات کرنے کی دلیری تک آئے تو اقتدار کی غلام گردشوں کی مہم جوئی کے ہتھے چڑھ گئے اور ایوان اقتدار سے نکل کر اپنے خلاف مرحلہ وار عدالتی کارروائی کے نتیجہ میں لانڈھی جیل کراچی جا پہنچے۔ یقیناً یہ بھی ایک تاریخ ہے جس کی جھلک انہوں نے ہفتے کی شام مینار پاکستان پر اپنی جذباتی تقریر میں بھی دکھائی اور باقی جھلک عرفان صدیقی صاحب دکھا رہے ہیں جو 1997ءسے انکے سیاسی ہمفسر ہیں۔
انکی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا اصل آغاز 12 اکتوبر 1999ءکو انکی اقتدار سے فراغت کے وقت ہی ہوا تھا مگر جب اپنی قید کے دوران مشرف کے جرنیلی اقتدار سے مفاہمت کرکے اپنے تمام اہل خانہ کے ساتھ خود کو سازوسامان سمیت جہاز میں لاد کر ملک سے باہر روانہ ہوئے اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کی تو انکی ایٹنی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے غبارے سے اسی وقت ہوا نکل گئی۔ قومی سیاست میں انکی اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی پختگی کے معاملہ میں مختلف آراءہو سکتی ہیں مگر 2004ءمیں لندن میں اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین طے پانے والے میثاق جمہوریت نے سب کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے پلڑے میں ڈال دیا۔ بے نظیر بھٹو بالآخر اسی سیاست کی بھینٹ چڑھ کر 27 دسمبر 2007ءکو شہید ہوگئیں اور اسکے ثمرات اپنی پارٹی کو تیسرے اقتدار کی صورت میں دے گئیں۔ میاں نوازشریف پہلے اس اقتدار کا حصہ بنے‘ پھر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار سنبھال لیا۔ اور اس افہام و تفہیم کے ثمرات سسٹم کے تسلسل و استحکام کی صورت میں نظر آنے لگے۔ اسی بنیاد پر 2014ءکے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اپنے تیسرے اقتدار کیلئے سرخرو ہوئی تو پیپلزپارٹی نے بھی بطور اپوزیشن اسے ٹف ٹائم دینے سے گریز کیا۔ چنانچہ سسٹم کے استحکام کیلئے سیاسی قیادتوں میں پیدا ہونے والا یہ ایکا توڑنے کیلئے عمران خان لانچ ہوئے اور پوری سہولت کے ساتھ اقتدار کے منصب تک پہنچائے گئے۔ یقیناً یہ بھی ایک تاریخ ہے اور ہماری آنکھوں کے سامنے کی تاریخ ہے۔ اسی عہدِ تاریخ میں عمران خان صاحب کے دل میں بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا سودا سمایا تاہم اس کیلئے انہیں دوسرے اہم ریاستی ادارے عدلیہ کی سہولت کاری حاصل ہو گئی جس کے باعث اپنے راستے میں کوئی قانونی‘ عدالتی قدغن نہ پا کر وہ ریاست کیخلاف طوفانِ بدتمیزی پر اتر آئے اور انکی سیاست ایٹنی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی حدود سے نکل کر تخریبی سیاست میں داخل ہو گئی۔ اس سیاست کا جو ایجنڈا ہے‘ اس کا بھی سب کو ادراک ہے جبکہ اسکے برعکس ملک اور عوام کا حشرنشر ہو گیا ہے۔ اس خانہ خرابی میں عمران خان اور انکی سہولت کار عدلیہ کے کردار سے تو ہرگز صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
اب عدلیہ کا ایک آزاد عدلیہ والا تشخص ابھرا ہے اور اسٹیبلشمنٹ ریاست کے مجرموں کے سوا ہر سیاست دان اور سیاسی جماعت کو یکساں مواقع فراہم کرنے کا عندیہ دے رہی ہے تو اسی آسودہ فضا میں میاں نوازشریف اپنی باقیماندہ قید کاٹنے کیلئے ملک واپس آگئے ہیں۔ انصاف و آئین کی عملداری انکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اس کا نظارہ بھی اب چند لمحات کے فاصلے پر ہی ہے مگر انہوں نے اپنی جارحانہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا رخ قومی مفاہمت کی سیاست کی جانب موڑ لیا ہے اور وہ ملک واپس آکر پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور انتخابی میدان میں اپنے دوسرے مخالفین کو خیرسگالی کا پیغام دے رہے ہیں تو اس سے سیاسی اور ادارہ جاتی اشتراکِ عمل کی بنیاد پر سسٹم کے تسلسل و استحکام اور ملکی معیشت میں پیدا ہونیوالے بگاڑ کو سدھارنے کی کوئی سبیل نکل سکتی ہے۔
مینار پاکستان کے جلسہ میں میاں نوازشریف کی تقریر کے یہی دو بنیادی نکات تھے۔ ایک یہ کہ وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے اور دوسرے یہ کہ وہ سیاست میں ذاتی انتقام سے خود کو باہر نکال رہے ہیں۔ ان کا تیسرا عندیہ انتخابات کے انعقاد کو آئینی تقاضے سے باہر نکالنے کا تھا اس لئے انہوں نے فوری انتخابات کا کوئی تقاضا نہیں کیا۔ اس سے یقیناً متعلقین کو انتخابات سے پہلے عمران خان کا مقبولیت کا زعم توڑنے کی سہولت مل سکتی ہے۔ آپ اس بارے میں جو چاہیں قیافے لگاتے اور نتائج نکالتے رہیں مگر اس عمل میں ملکی معیشت سنبھل گئی اور عوام غربت‘ مہنگائی کے گرداب سے باہر نکل آئے تو اس سے کم از کم سلطانی جمہور کے ثمرات تو جمہور کو ملنا شروع ہو جائیں گے۔ ماضی کے حکمرانی دعوﺅں اور وعدوں کے ڈسے ہوئے عوام اس ممکنہ نتیجے پر لمحہ بھر کو مطمئن نظر آئیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔
اب رہی بات مینار پاکستان کے جلسہ کے شرکاءکی تعداد کی تو میں عینی شاہد ہونے کے ناطے آج بھی پورے اطمینان قلب کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ 10 اپریل 1986ءکو جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آنیوالی پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا لاہور میں جو والہانہ استقبال ہوا‘ اسکے بعد پیپلزپارٹی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت 21 اکتوبر 2023ءتک ایسا عوامی اجتماع نہیں دکھا سکی۔ بے نظیر بھٹو کا تو ایئرپورٹ سے مینار پاکستان تک جلوس ہی جلسہ گاہ بن گیا تھا اور یہ لوگ بغیر کسی تیاری کے خود گھروں سے نکل کر آئے تھے۔ اسکے بعد اگر کوئی بڑا اجتماع مینار پاکستان پر ہوا تو وہ علامہ خادم حسین رضوی کی میت کے ساتھ آنیوالے لوگوں اور انکی نماز جنازہ کا تھا۔ اگر اس تناظر میں مینار پاکستان پر عمران خان کے 2912ءکے عوامی جلسے اور میاں نواشریف کے 21 اکتوبر والے جلسے کا موازنہ کیا جائے تو میاں نوازشریف کو بلاشبہ اس میں سبقت حاصل ہوئی ہے مگر کھربوں روپے کی لاگت سے ہونیوالے اس جلسے سے عوام کو مسلم لیگ(ن) کی سیاست میں تحرک پیدا ہونے کے سوا تو کچھ نہیں ملا۔ اس بارے میں انشاءاللہ اگلے کالم میں مفصل روشنی ڈالوں گا۔