• news

نواز شریف کی سیاسی رہنماﺅں سے ملاقاتیں اور سیاسی سرگرمیاں

سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد محمد نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد لاہور میں ایک تاریخی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اب اگلے مرحلے میں وہ اپنی جماعت اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنماﺅں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ اس سب سے یہی پتا چلتا ہے کہ عام انتخابات جلد ہی منعقد ہوں گے اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ملک اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عوامی مینڈیٹ سے تشکیل پانے والی ایک ایسی حکومت موجود ہو جو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں سے متعلق پورے اعتماد کے ساتھ فیصلہ سازی کرسکے۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت کے مابین افہام و تفہیم کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا تب تک یہ ممکن نہیں ہے کہ عام انتخابات کے بعد ایک مستحکم حکومت وجود میں آسکے۔
سیاسی قیادت کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لیے ہی نواز شریف بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ اتوار کو ان سے اپنی پارٹی کے رہنماﺅں کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے غلام احمد بلور نے ملاقات کی۔ پارٹی رہنماﺅں سے ہونے والی ملاقات میں ان کے چھوٹے بھائی اور سابق وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز ، نون لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز، سابق وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور سابق وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ موجود تھے۔ ملاقات میں ملکی معاشی و سیاسی صورتحال اور مینار پاکستان جلسے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر نوازشریف کے کیس سمیت عدالتی امور اور 24 تاریخ کو عدالتی کارروائی کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی کارروائی بارے پارٹی قائد اور رہنماﺅں کو بریفنگ دی۔ اس موقع پر قائد نون لیگ کا کہنا تھا کہ ہم نے وکلاءتحریک چلائی، ہمیشہ قانون کا احترام کیا، مجھ سمیت مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے بے بنیاد کیسز کا سامنا کیا، پارٹی کے تمام لوگ جھوٹے مقدمات میں سرخرو ہوئے، میں عوام کے لیے آیا ہوں، دعا ہے عام آدمی خوشحال ہو۔ نوازشریف نے مینار پاکستان جلسے پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اتوار کو جاتی امرا میں شریف خاندان کی اہم بیٹھک بھی ہوئی جس میں نوازشریف کی وطن واپسی پر ملکی سیاسی پس منظر پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اہم بیٹھک میں پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کی قیادت سے ملاقات اور ٹیلی فونک رابطوں کا فیصلہ ہوا۔ سابق وزیراعظم شہبازشریف کی تجویز کے بعد نوازشریف اگلے دو روز میں سیاسی رابطوں کا آغاز کریں گے۔ نوازشریف سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، بلو چستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل اور بلاول بھٹو زرداری سمیت مختلف رہنماﺅں سے خود رابطے کریں گے۔ ملاقات میں طے پایا کہ نوازشریف پہلے قانونی معاملات پر فوکس کریں گے۔ نوازشریف پی ڈی ایم کی قیادت کا شکریہ ادا کریں گے۔ اس ملاقات میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ نون لیگ پیپلز پارٹی سے محاذ آرائی کی پالیسی اختیار نہیں کرے گی۔ ملاقات میں پارٹی رہنماﺅں کو پیپلزپارٹی کی لیول پلیئنگ فیلڈ اور نوازشریف کی واپسی کے حوالے سے سیاسی محاذ آرائی سے گریز کی تجویز دی گئی ہے۔ 
ادھر، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ باپ کی ترجمان سینیٹر کہدہ بابر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نون لیگ کے اتحادی تھے اور مستقبل میں بھی ساتھ مل کر چلیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ نوازشریف کی وطن واپسی کا خیرمقدم کرتے ہیں، ان کی واپسی ملک کے لیے خوش آئند ہے، ملک سیاسی و معاشی استحکام کی طرف بڑھے گا۔ اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور جاتی امرا پہنچے جہاں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر اداروں نے نواز شریف کا ساتھ دیا تو نوازشریف ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن وقت پر ہونا چاہیے، آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بات چیت ہوگی۔ اسی طرح، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)کی رہنما سائرہ بانو نے کہاہے کہ ملک کے مفاد میں ہم وفاق کی سطح پر نون لیگ کے ساتھ الیکشن لڑسکتے ہیں۔کراچی میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے سائرہ بانو نے عندیہ دیا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ رہنما جی ڈی اے کا مزید کہنا تھا کہ ہم اکیلے کچھ نہیں کر سکتے، عوام کو جگانے کی کوشش کریں گے، اگر ایک دوسرے کو گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑنے والے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔
یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ سیاسی قیادت کو اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ رسہ کشی سے ان میں سے کسی کو بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اس سے ملک اور عوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ پہلے بھی سیاسی قیادت کی باہمی کھینچا تانی کی وجہ سے ہم بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ سیاسی قیادت معاملات کو سمیٹنے کے لیے آپس میں اتحاد و اتفاق کرے۔ اس سلسلے میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے مابین ہونے والے میثاقِ جمہوریت کو رہنما دستاویز کے طور پر سامنے رکھا جاسکتا ہے اور اسی میں ترامیم کر کے ایک نیا معاہدہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام آتا ہے تو اقتصادی و انتظامی مسائل بھی حل ہوں گے اور عوام کو بھی ریلیف ملے گا۔ ملک اس وقت جن سنگین حالات کا شکار ہے ان کا حل صرف اسی صورت نکل سکتا ہے کہ سیاسی قیادت آپس میں معاملات کو بہتر بنائے اور عوام کو اس بات کا احساس دلائے کہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اسے ہم نے مل کر ہی سنوارنا ہے ورنہ نقصان کسی ایک گروہ، فریق یا جماعت کا نہیں بلکہ سب کا ہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن