منگل ‘ 8 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 24 اکتوبر 2023ئ
سرکاری سکولوں کی نجکاری کی باتیں بے بنیاد ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب۔
وزیر اعلیٰ کی یہ بات جب تک لوگوں تک پہنچی ہے، بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے بعض بیانات اور کابینہ کی طرف سے ملنے وا لےاشاروں سے لگ رہا تھا کہ سرکاری سکول اب اونے پونے داموں من پسند افراد اور این جی اوز میں کوڑیوں کے مول تقسیم ہوں گے۔ اپنی پنشن و واجبات کے حوالے سے اساتذہ بھی کئی دنوں سے سکولوں کی تالابندی کر کے ہڑتال پر ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ طلبہ گھروں میں کم اور سڑکوں پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ پہلے ہی سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار تعلیم اور اساتذہ کے حسن سلوک کی وجہ سے طلبہ کامستقبل تباہ ہو رہا ہے۔ وہ کیا کم تھا کہ اب سکولوں کی تالابندی کر کے طلبہ کو بھی ساتھ ملا کر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان طلبہ کا ہورہا ہے۔ حکومت پنجاب خود بھی ہوش کے ناخن لے۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں غریب غربا اور سفید پوش لوگوں کے بچے تعلیم پاتے ہیں۔
واجبی فیس بلکہ سچ کہیں تو تقریباً مفت تعلیم ملتی ہے۔ یہی ادارے بڑے بڑے لوگوں کو جنم دیتے تھے۔ پھر نہ وہ تعلیم رہی نہ وہ اساتذہ۔ رویوں میں تبدیلی آئی سیکھنے اور سکھانے والے کم ہو گئے۔ اس کے باوجود کم فیس جو چند روپے ہے، کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھاتی ہے۔ اب اگر انکی نجکاری ہوئی تو ان کی بھاری فیس کون دے گا۔ یہ تو سراسر اشرافیہ کی سازش لگتی ہے کہ ان کے بچوں کے علاوہ کوئی بھی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ ہزارقں کی فیس ادا کرنا غریب کے لیے تو بالکل ممکن نہیں۔ اب وزیر اعلیٰ کے وضاحتی بیان پر اعتبار کر لیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اساتذہ بھی یقین کر لیں اور سکول کھولیں اگر ایسا ہوا تو پھر بے شک دوبارہ تالا بندی کر دیں۔
٭٭٭٭٭
پشاور میں روپوش ملزموں کی تصویریں نام اور پتے اہم شاہراہوں پر نصب ہوں گے۔
یہ ایک اچھا فیصلہ ہے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ ان کے اردگرد جو لوگ موجود ہیں وہ کون ہیں اور کیا ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں۔ اس طرح ذرا پہچاننے میں آسانی رہے گی۔ اگر ان کی رونمائی کرنے والوں کے لیے معقول معاوضہ یعنی انعام بھی مقرر کیا جائے تو بہت سے لوگ رضاکارانہ طور پر ان کی مخبری کر کے ثواب کمائیں گے۔ اس کارخیر میں حصہ لینے پر تیار ہوں گے بس شرط وہی ہے کہ ان کا نام و پتہ اور شناخت پوشیدہ رہے۔ اب معلوم نہیں یہ روپوش ملزمان صرف سیاسی ہوں گے یا عام جرائم پیشہ خطرناک مجرم بھی اس اشتہاری مہم کا حصہ بنیں گے۔ سیاسی روپوش ملزموں کے حامی تو کہیں ان کی تصاویر والے بینرز ہی نہ پھاڑ دیں کیونکہ اس طرح ان کے لیڈروں کی نیک نامی میں اضافے کا خطرہ ہوتاہے۔ جرائم پیشہ افراد کہیں ازخود ان بینروں کو جلا سکتے ہیں یا گولیوں سے چھلنی کر کے ناقابل شناخت بنا سکتے ہیں۔ ویسے تو پولیس کا اپنا مخبری کا نظام کسی دور میں خاصہ اچھا تھا۔ اب بھی ہو گا مگر پھر بھی روپوش ملزموں کی گرفتاری میں تاخیر باعث حیرت ہے۔ لوگ تو کہتے ہیں جو پولیس اپنی ناک کے نیچے چلنے والے جوا خانوں، منشیات کے اڈوں اور ناجائز اسلحہ فروخت کرنے والوں سے بے خبر ہو کر ان کی خاموشی سے سرپرستی کرتی ہو کیا وہ ان روپوش ملزموں سے نذرانے نہیں لیتی ہو گی۔ حکومت خیبر پی کے ذرا اعلان کرے کہ جس علاقے سے روپوش ملزم برآمد ہو گا اس کے ایس ایچ او کو نوکری سے نکالا اور اعانت جرم پر گرفتار کیا جائے گا۔ پھر دیکھیں ان روپوش ملزموں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ آزمائش شرط ہے ان کو پناہ دینے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے تاکہ لوگ محتاط رہیں۔
٭٭٭٭
باپ کا مسلم لیگ (نون) کے ساتھ اتحاد۔ کاہنہ میں پی ٹی آئی کے کنونشن پر پولیس کا دھاوا۔
لگتا ہے جے یو آئی کے بعد بلوچستان میں سابق حکمران پارٹی بی اے پی جسے عرف عام میں باپ بھی کہا جاتا ہے کا سہارا ملنے کے بعد مسلم لیگ (نون) والوں کو تھوڑی بہت تسلی ہو گئی ہو گی کہ حالات ان کے حق میں کچھ بہتر ہو سکتے ہیں۔ اب شرط وہی ہے کہ نون لیگ کے پرجوش مقررین جوش خطابت میں کہیں شیخ رشید ، مراد سعید یا سابقہ نواز شریف بننے کی کوشش نہ کریں۔ ورنہ پھر شادیانے بجنے کی بجائے ان کا بینڈ بھی بج سکتا ہے۔ اس لیے احتیاط لازم ہے۔ بہرحال اس وقت ہوائیں نون لیگ کے مواقف چل رہی ہیں۔ عقل مند وہی ہوتا ہے جو ہوا کے مواقف چلے ورنہ مخالف سمت میں چلنے والی کشتیاں اکثر ساحل کنارے بھی ڈوب جاتی ہیں۔ ق لیگ والے پنجاب میں پہلے ہی ساتھ ہیں۔ یوں دیکھئے "گذرتی ہے کیا قطرے پہ گ±ہر ہونے تک۔" اس لیے کھانا ہمیشہ کہتے ہیں ٹھنڈا کر کے کھانا چاہیے ورنہ زبان جل سکتی ہے۔
یہ زبان و بیان کی مصیبت ہی تو ہے جو تحریک انصاف والوں کے گلے پڑی ہے۔ شیخ رشید بھی یہی رونا رو رہے ہیں۔ گزشتہ روز کاہنہ میں تحریک انصاف والوں کو اجازت بھی دی گئی تھی مگر اس کے باوجود پولیس نے ان کے کنونشن پر دھاوا بول کر ان کے 35 کارکنوں کو نجانے کیوں پکڑ لیا۔ اگر کسی اور جماعت کے جلسے سے کنونشن سے ریلی سے لاہور میں امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا تو پھر تحریک والوں کو بھی اجازت ملنی چاہیے کہ وہ بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیں۔ ہاں زبان و بیان پر ان کو بھی قابو رکھنا پڑے گا ورنہ خود کہیں کسی کے قابو میں آ گئے تو شکوے شکایت کا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ اسی لیے بڑوں نے زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنے کی تلقین کی ہے یاد رہے تلقین مردے کو نہیں زندوں کو ہی کی جاتی ہے۔
٭٭٭٭
آج غزہ کے لیے نہیں بولیں گے تو کل یہ آگ ہر جگہ جائے گی۔ طاہر اشرفی
یہ بات سب جانتے ہیں پھر بھی خاموش ہیں۔ خدا جانے مسلم ا±مہ کی حمیت کو کیا ہو گیا۔ ”نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر“ ایک بھیانک خاموشی اور بے عملی نے ساری دنیا کے سامنے اتحادِ امہ کے دعوے کو تارعنکبوت کی طرح بکھیر کر رکھ دیا۔ سب غیر مسلم اقوام نے جان لیا مان لیا کہ یہ اتحاد عالم اسلامی محض ایک نعرہ ہی ہے۔ سب مسلم ممالک اپنی اپنی مسیتوں اور موجوں میں غرق ہیں بس عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اتحاد، اتفاق اور جسد واحد کے نعرے لگاتے ہیں۔ حقیقت میں اگر کوئی اس جسد واحد کی بوٹی بوٹی نوچ رہا ہو تو بھی یہ اسے روکنے کے لیے عملی حرکت نہیں کرتے ہاں زبانی دعوے ضرور کرتے ہیں۔ ورنہ ایک مچھر جیسے اسرائیل کی کیا مجال کہ اپنے اردگرد تین بڑے مسلم ممالک کے گھیرے کے باوجود ارض فلسطین کو لہولہان کر دے۔ مگر دیکھ لیں اسرائیل کے حملے جاری ہیں اور ہمارے اسلامی اتحاد کے اجلاس جاری ہیں۔ کوئی آگے بڑھ کر جارح کا ہاتھ کاٹ نہیں سکتا مگر روک تو سکتا ہے۔ سچ کہتے ہیں سماج کو معاشرے کو مذہب کو اتنا نقصان شریر اور ظالم لوگ نہیں پہنچا سکتے جتنا اس ظلم پر شرارت پر خاموش رہنے والے بہادروں اور عقل مندوں کی وجہ سے پہنچتا ہے۔ آج ہم سب خاموش ہیں تو واقعی کل یہ آگ ہمارے گھروں کو بھی جلانے لگے گی۔ کیا تب بھی باقی سب خاموش ہی رہیں گے۔ یوں یکے بعد دیگرے ہم سب تباہی کا نشانہ بنیں گے۔ کیونکہ امریکہ اسرائیل اور بھارت یہی چاہتے ہیں کہ عالم اسلام کو کہیں سر اٹھانے کے قابل نہ چھوڑا جائے۔
٭٭٭٭٭