عالمی راہداری فورم میں نگران وزیراعظم کی شرکت
ابن انشاءنے کہا تھا کہ چلتے ہوتو چین کو چلئے .... قریبی برادرانہ تعلقات کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ چین جیسی سپرطاقت ہمارے آنگن کا حصہ بن گئی ہے۔ ہم ایک پاﺅں خنجراب سے آگے رکھیں توچین کی وسعتیں ہمیں خوش آمدید کہتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تو اب محاورہ بن گیا ہے کہ پاکستان کی چین سے دوستی ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلند ، سمندروں سے زیادہ گہری، شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ ہمارے نگران وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ بڑی تیزی سے عالمی شخصیات کی صف میں اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ چین نے گذشتہ ہفتے عالمی اقتصادی راہداری کا چار روزہ فورم منعقد کیا ، جس میں دنیا کے چالیس ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اس فورم میں شرکت کیلئے نگران وزیراعظم بیجنگ پہنچے تو ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا۔ راہداری فورم کے سربراہی اجلاس سے ہٹ کر جناب انوارالحق کاکڑ صاحب نے کئی ممالک کے صدور و وزراءاعظم سے ون ٹو ون ملاقاتیں کیں۔ چینی وزیراعظم کے ساتھ بھی ان کی ملاقات ایک یادگارتاریخی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ کیونکہ اس ملاقات میں دو طرفہ تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔
عوامی جمہوریہ چین بڑی خاموشی مگر تیزی سے عالمی سپرپاور بننے کا سفر طے کررہا ہے۔ وہ عالمی تنازعات میں الجھنے کا روادار نہیں، بلکہ تجارتی روابط کے ذریعے اپنے خارجہ تعلقات کووسعت دے رہا ہے۔ اس نے دنیا بھر کے تین براعظموں کو آپس میں مربوط کرنے اورزمینی،فضائی،بحری طورپر جوڑنے کیلئے ایک عظیم الشان منصوبہ ترتیب دیا ، جس کے تحت منصوبے میں شامل ممالک میں شاہراہوں اور ریلوے کا جال بچھ جائیگا۔ چین نے کاروبار کو سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔اس عالمی اقتصادی راہداری کے ذریعے چین دنیا بھر کی سب سے بڑی بزنس ایمپائر بن جائے گا۔ پاکستان کا اس منصوبے میں کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ جسے ”سی پیک “کا نام دیا گیا ہے۔ سی پیک کے اس عظیم منصوبے کے ذریعے چین کا زمینی رابطہ پاکستان میں گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ سے قائم ہوجائے گا۔ سی پیک اصل میں صدیوں کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ یہ خواب شاہراہ ریشم کے ذریعے سفر کرنے والے اونٹوں کے قافلوں نے دیکھے، اب اسی شاہراہ ریشم کو ایک جدید ترین آل ویدر سڑک کے طور پر تعمیر کیا جارہا ہے۔ اور اسے پاکستان کے ساحل پر گوادر کی بندرگاہ سے جوڑ دیا گیا ہے۔
منصوبے کے تحت سی پیک کے راستے پر جگہ جگہ تجارتی زون قائم کئے جائینگے۔جہاں چین کی بڑی بڑی فرمیں سرمایہ کاری کیلئے تیار کھڑی ہیں۔ چین میں منعقدہ عالمی راہداری فورم میں 140ممالک کے سربراہان نے خطاب کئے۔ پاکستان کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے خطاب میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اس راہداری فورم کے ذریعے کاروبارکو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں اور قوموں کا آپس میں ملاپ بھی ہوگا۔ دنیا کے ایک بڑے حصے میں نیا معاشرتی کلچر ظہور پذیر ہوگا۔
نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک عالمی کمیونٹی کی تشکیل کیلئے صدر شی کے وژن اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو سراہتے ہوئے پاکستان میں نئے اقتصادی مواقع پیدا کرنے میں سی پیک کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔انہوں نے نقل و حمل، توانائی اور ڈیجیٹل معیشت میں سرمایہ کاری کرکے ترقی پذیر دنیا میں بنیادی ڈھانچے کے خلا کو دور کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کیانگ کے ساتھ ساتھ ساتھ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی سینئر قیادت سے بھی ملاقاتیں کیں اور دو طرفہ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کیلئے ممکنہ پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔ نگران وزیراعظم نے روسی فیڈریشن کے صدر ولادیمیر پوٹن سے بھی ملاقات کی۔ دونوں رہنماﺅں نے تجارت، سرمایہ کاری اور توانائی پر خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے دوطرفہ تعاون کا جائزہ لیا اور پاکستان روس تعلقات میں مسلسل توسیع پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے یوریشیائی رابطوں کو بڑھانے کے امکانات اور ریل، سڑک اور توانائی کی راہداریوں کے ذریعے علاقائی انضمام میں پاکستان کے اہم کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا،اس تاریخی موقع پر نگران وزیراعظم نے قازقستان کے صدر قاسم جومارٹ توکایف اور سری لنکا کے صدر رانیل وکرماسنگھے سے ملاقات کی۔انہوں نے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سے بھی ملاقات کی اور غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اسکے علاوہ وزیراعظم نے چین کی سرکردہ کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں اور انکے کارپوریٹ ایگزیکٹوز کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات کو تلاش کرنے کی ترغیب دی۔ان چینی کاروباری اداروں میں ایم سی سی،چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی، چائنا روڈ اینڈ برج کارپوریشن، عامر انٹرنیشنل گروپ، پاور چائنا، چائنا انرجی اور چائنا گیزوبا گروپ کے سی ای اوز اور ایگزیکٹوز شامل تھے۔ وزیراعظم نے چینی تاجروں کو معاشی اور مالی استحکام کیلئے پاکستان کے اقدامات سے آگاہ کیااور پاکستان کی سرمایہ کار دوست پالیسیوں کا خاکہ پیش کیا۔جس میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام بھی شامل ہے، جو غیر ملکی سرمایہ کاری کی سہولت کیلئے ون ونڈو پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گی۔دورے کے دوران یونائیٹڈ انرجی گروپ آف چائنہ اور پاکستان ریفائنری لمیٹڈ نے پیٹرولیم سیکٹر میں 1.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔یہ ایم او یو ریفائنری کی پٹرول کی پیداواری صلاحیت کو 250,000 میٹرک ٹن سے 1.6 ملین میٹرک ٹن اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کو 0.6 ملین میٹرک ٹن سے 2 ملین میٹرک ٹن تک بڑھانے میں مدد کریگا۔دورے کے دوران فریقین نے 20 معاہدوں اور مفاہمت ناموں پر دستخط کیے، جن میں بی آر آئی، انفراسٹرکچر، کان کنی، صنعت، سبز ترقی، صحت، خلائی تعاون، ڈیجیٹل، ترقیاتی تعاون اور چین کو زرعی مصنوعات کی برآمدات شامل ہیں۔
نگراں وزیراعظم نے چین میں تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں شرکت کرنیوالے عالمی رہنماﺅں کیلئے صدر شی جن پنگ کی جانب سے دی گئی سرکاری ضیافت میں بھی شرکت کی۔عظیم عوامی ہال میں منعقدہ ریاستی ضیافت میں روس، کینیا، ایتھوپیا، منگولیا، ہنگری، سری لنکا، قازقستان، ازبکستان، پاپوا نیو گنی، موزمبیق اور چلی کے سربراہان مملکت وحکومت نے شرکت کی۔ضیافت میں صدر شی جن پنگ اور خاتون اول میڈم پینگ لی یوان نے وزیراعظم کا استقبال کیا۔ا س طرح نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے اس دورے نے چین اور پاکستان کے درمیان نئی قربتیں پیدا کی ہیں۔ جس سے پاکستان کے معاشی مستقبل پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
٭٭٭