• news

آرمی چیف کا پیغام، لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ اور الہان عمر کو سلام!!!!!!

قرآن کریم میں ہے 
ترجمہ: اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا۔پڑھواور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے۔جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
یہ قرآن کریم کی آیات ہیں اور تعلیم کے حوالے سے سب سے بڑا پیغام ہیں۔ ہمیں تعلیم اور ہنر کے معاملے میں ٹھوس اور جامع پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں شعور کی ضرورت ہے اور تعلیم کو عام بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے دو ہزار تیئیس میں آج بھی ہم تعلیم و صحت کے معاملے میں ہم اس توجہ لگن اور دلجمعی سے کام نہیں کر رہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی دنیا سے بہت پیچھے ہیں ۔ ہم جس رفتار اور جس سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں مستقبل قریب میں بھی تعلیم کے میدان میں بہت زیادہ ترقی دکھائی نہیں دیتی۔ ہم تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے یا اس شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو ان کا جائز مقام بھی نہیں دیتے ہیں۔ ہم انہیں معاشرے میں مثالی بنا کر لوگوں کو ترغیب ہی نہیں دیتے کہ تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے بھی ہمارے ہیروز ہیں۔ ہمیں تعلیم، ادب، تحریر و تحقیق سے وابستہ افراد کی بھی ویسے ہی قدر کرنے کی ضرورت ہے جیسے ہم سپورٹس، سیاست، بیوروکریسی، شوبز سمیت دیگر شعبوں کی نمایاں شخصیات کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہمیں تعلیم کے شعبے کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ 
اس حوالے سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کہتے ہیں کہ "تعلیم کوئی آپشن نہیں بلکہ ضرورت ہے ، طلبہ پر ذمے داری ہے کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیں اور اپنی ذہانت کا بھرپور استعمال کر کے ان کا حل نکالیں۔آئی ایس پی آر کے مطابق اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے سالانہ کانووکیشن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ میں میڈلز تقسیم کیے۔
طلبہ کی زندگی میں آج کا دن ایک نئے باب کا آغاز ہے، فارغ التحصیل طلبہ نئی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں، یہ نئی ذمہ داری طلبہ کی شخصیت اور آگے آنے والے سفر میں عیاں ہونی چاہیے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ طلبہ پر فرض ہے وہ ملک کو درپیش چیلنجز کو پہنچانیں اور ان کا حل تلاش کریں۔
جنرل عاصم منیر نے تعلیم کے فروغ کے لیے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تعریف کی اور کہا کہ نسٹ قوم کے بہترین معمار تیار کر رہی ہے۔"
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ کانووکیشن ویک میں 7 بنیادی مضامین میں 3500 سے زائدطلبہ کو بیچلرز، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جا رہی ہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ تعلیم کوئی آپشن نہیں بلکہ ضرورت ہے اور جب تک ہم اسے ایک بنیادی ضرورت نہیں سمجھیں گے اس وقت مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یہ سوچ ہر سطح پر اپنانے کی ضرورت ہے، یہی سوچ ہمیں آگے لے کر جا سکتی ہے۔ بنیادی طور پر تو سب سے پہلے یہ بات پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے اور سیاسی قیادت کو اس حوالے سے بہت وضاحت کے ساتھ جامع حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے۔ سرکاری سطح پر معیار تعلیم کو بلند کرنے اور اساتذہ کے ساتھ اس ملک کے اہم ترین افراد جیسا برتاو¿ ہونا چاہیے۔ اساتذہ کو ایلیٹ بنائیں اور انہیں ہر قسم کے مسائل سے نکال کر قوم کا مستقبل بنانے کی ذمہ داری نبھانے دیں۔ اساتذہ کو ہر قسم کے مالی تفکرات سے آزاد کریں اور انہیں مستقبل کے لیڈرز بنانے دیں ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "الیکشن میں تاخیر الیکشن سے انکار ہے۔
ہمیں تو غیر جمہوری قوتوں کو دکھانا تھا جمہوری حکومت کیسے قائم کرتے ہیں، ہمیں تو پارلیمان اور عوام کا اعتماد بحال کرنا تھا ۔ راتوں رات سارے ادارے نیوٹرل ہو رہے تھے ۔ واہ جی واہ، سب ایک ہی ادارے کے ذریعے احتساب کے قائل ہیں۔"
بلاول بھٹو زرداری اور ان کی جماعت کو اصل مسئلہ میاں نواز شریف کی واپسی سے ہے۔ درحقیقت کوئی بھی جماعت یہ نہیں چاہتی کہ لیول پلینگ فیلڈ ہو سب یہی چاہتے ہیں کہ انہیں کہیں نہ کہیں سے حمایت ضرور ملے۔ جسے جب حمایت ملتی ہے وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسروں کو نشانہ بناتا ہے۔ جنہیں حمایت نہیں ملتی وہ دوسروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آج بھی اگر ہم دیکھتے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو اصل مسئلہ یہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف واپس آئے ہیں اور اگر وہ پنجاب سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو وفاق میں حکومت بنانے کے دعویدار بھی ہوں گے۔ صرف پی ایم ایل این ہی نہیں کوئی بھی جماعت اگر پنجاب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرتی ہے وہ وفاق میں بہت اچھی پوزیشن میں ہو گی۔ اگر پیپلز پارٹی پنجاب میں کمزور ہوئی ہے تو یہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کی قیادت کا کیا دھرا ہے۔ اگر آج پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو اس کی ذمہ داری بھی اس کی قیادت پر عائد ہوتی ہے وہ اس کا الزام کسی اور کو نہیں دے سکتے۔ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کا بہانہ کوئی بھی ڈھونڈے وہ غلط ہے۔ البتہ اداروں کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کا ہونا ہر حال میں اہم ہے اور اس کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنے اور ملک کی ترقی، بہتر مستقبل اور قومی سلامتی کے لیے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہیے۔ ملک سب سے اہم اور سب سے بہتر ہے۔ 
غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت اور اسرائیل کو حاصل امریکی حمایت پر مسلم امریکی رکنِ کانگریس الہان عمر نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ "حماس اور اسرائیل میں جاری جنگ پر آپ کی انسانیت کہاں ہے؟ آپ کیسے ایک ہی جانب کا ظلم دیکھ کر اسے غلط کہہ سکتے ہیں؟ آپ کیسے لاشوں کے ڈھیر دیکھ کر اپنی دوستیاں برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اسرائیل نے حالیہ دس دنوں میں غزہ پر اتنی بمباری کی ہے جتنی امریکا نے پورے ایک سال میں افغانستان میں کی تھی، اب آپ کی لوگوں کیلئے ہمدردی کہاں گئی؟ اب آپ کی انسانیت کہاں گئی ؟ 
 ہمارے پاس ایک ایسا صدر ہے جو یرغمالیوں کو رہا کرنے کی بات کر رہا ہے جو امریکی شہریوں کو اسرائیل سے نکالنے کی بات کر رہا ہے لیکن خود کو یہ کہنے پر آمادہ نہیں کر سکا کہ میں ان سیکڑوں، ہزاروں امریکیوں کو بچانے کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں جو غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔"
الہان عمر کی ہمت، جذبے اور امریکی صدر کو آئینہ دکھانے پر میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ میں ہمیشہ لکھتا آیا ہوں کہ عالمی اداروں اور دنیا کے طاقتور ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ فیصلے حقائق کے بجائے مذہب دیکھنے کے بعد کرتے ہیں۔ کوئی ایسا نہیں جو تنازعات میں انسانیت یا انسانی حقوق کے فلسفے پر بات کرے۔ دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ،امریکہ سمیت تمام اہم ممالک خون بہانے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔ فلسطین میں مظلوم فلسطینیوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور امریکہ اسرائیل کا حمایتی بنا ہوا ہے۔ ان حالات میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے۔
 الہان عمر نے امریکی صدر کو آئینہ دکھایا ہے۔ کاش کہ جو بائیڈن کو اس آئینے میں اپنے چہرے پر مظلوم فلسطینیوں کا خون نظر آئے۔ ویسے تو کشمیر اور فلسطین میں مظلوم مسلمانوں کے قتل عام اور خون کے دھبے دنیا کے ہر بڑے لیڈر کے چہرے پر ہیں لیکن جو بائیڈن کا چہرہ اس خون سے اور ان سے پہلے والے امریکی صدور کا چہرہ ان سے بھی زیادہ بھرا ہوا ہے۔
آخر میں پروین شاکر کا کلام
کیا کیا نہ خواب،ہجر کے موسم کھوگئے
ہم جاگتے رہے تھے،مگربخت سوگئے
اُس نے پیام بھیجے تو رستے میں رہ گئے
ہم نے جو خط لکھے،وہ ہوابُردہوگئے
میں شہرگل میں زخم کاچہرہ کیسے دیکھاو¿ں
شبنم بدست لوگ تو کانٹے چبھوگئے
آنچل میں پھول لے کے کہاں جارہی ہوں میں
جوآنے جانے والے لوگ تھے،وہ لوگ توگئے
کیا جانیے اُفق کے اُدھر کیا طلسم ہے
لوٹے نہیں زمین پہ اک بار جوگئے
جیسے بدن سے قوس قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پھول کے سب زخم دھوگئے
آنکھوںمیں دھیرے دھیرے اُترکے پرانے غم
پلکوں میں ننھے ننھے ستارے پروگئے
وہ بچپنے کی نیند تواب خواب ہوگئی
کیا عمرتھی کہ رات ہوئی اورسوگئے
کیادکھ تھے کون جان سکے گا،نگارشب!
جومیرے اورتیرے دوپٹے بھگوگئے

ای پیپر-دی نیشن