• news

نواز کا جلسہ، بائیڈن اور رشی میں مقابلہ

ایک فلسطینی نے ٹویٹ کی کہ ابھی ابھی اسرائیل نے بم مارا ہے، میرے گھر خاندان کے جملہ 30 افراد مارے گئے۔ ظاہر ہے، خاندان میں کئی گھر ہوتے ہیں۔ چند دن پہلے کئی گھروں کا ایسا ہی ایک خاندان شہید ہوا، 101 میں سے صرف ایک بچا۔ ایک گھر پر بمباری میں ماں باپ مارے گئے، تین ننّھی بہنیں بچیں۔ بڑی بہن سات آٹھ سال کی، دو اس سے چھوٹی ہیں۔ سات آٹھ سالہ بڑی بہن کو اب سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ خود روئے یا چھوٹی بہنوں کی ”ماں“ بن کر انہیں دلاسا دے۔ بہت سے، بلکہ سینکڑوں بچّے دکھائے گئے ہیں جو بمباری کے کئی گھنٹوں بعد بھی، لاشعوری طور پر کانپے جا رہے ہیں۔ ٹراما کی ایک قسم یہ بھی ہے۔ یہ بچے ابھی کانپتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگلی بمباری میں اپنی کپکپاہٹ سمیت رزق خاک ہو جائیں گے۔ 
دو ہزار سے زیادہ بچے اب تک مارے گئے، ہر روز سوا سو کے قریب بچے مرتے ہیں اور اتنی ہی عورتیں اور پھر مرد بھی۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور کینیڈا نے مظلوم اسرائیلیوں جے لیئے اور ظالم فلسطینیوں کیخلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کا اعلان کیا ہے۔ پوری یورپی یونین میں اکیلے فرانس نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، باقی سب ، ”حق“ کی آخری فتح تک جنگ جاری رکھنے کے حامی ہیں، یہاں تک کہ غزہ کے ظالموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا کام مکمل نہ ہو جائے۔ چاروں اتحادیوں میں سے ہر ایک اسرائیل کا پرجوش حامی بننے کی دوڑ میں ہے، سخت مقابلہ بائیڈن امریکی صدر اور رشی ساننگ برطانوی وزیر اعظم میں ہے۔ رشی کا معاملہ کریلا اور نیم چڑھا والا ہے۔ ایک تو وہ برطانوی وزیر اعظم ہے، دوسرا بی جے پی نڑاد ہے۔ وہ بھارتی نڑاد وزیر اعظم نہیں، مودی نڑاد وزیر اعظم ہے۔ 
مسلمان ملکوں میں اکیلا ترکی اسرائیل کا ہم پلّہ کہا جا سکتا ہے اور وہی اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ وہ اسرائیل کو سبق سکھا سکتا ہے لیکن سکھائے گا تو امریکہ برطانیہ جرمنی اسے سبق سکھا دیں گے۔ چنانچہ صبر مجبوری ہے۔ عالم اسلام کی دوسری بڑی فوجی طاقت مصر ہے (واہ، سبحان اللہ) لیکن ایک تو اس کی فوج دشمن سے جنگ لڑنے کی صلاحیت سے عاری ہے،کئی عشروں سے اس کی تربیت اپنے عوام کو پوائنٹ بلیک پر رکھنے کی ہے، دوسرا معاملہ یہ ہے کہ مصر کی حکومت اسرائیل سے بڑھ کر فلسطینیوں کی دشمن ہے۔ پھر سونے پر سہاگہ، وہاں جامعہ الازہر کا بہت اثر و رسوخ ہے چنانچہ اسرائیل کیلئے ”ستّے خیراں“ ہیں۔ 
حماس کے پاس راکٹ ختم ہو چلے، اس کا ڈنک نکل گیا لیکن معاملہ حماس کا تھا ہی کہاں، اب تو مغربی کنارہ بھی نشانے پر ہے جہاں حماس کا وجود ہی نہیں ہے۔ 
ایک اسرائیلی ربّی RABBI یارون ریوون REUN کا خطاب سرکاری ٹی وی چیلنز پر دکھایا جا رہا ہے۔ وہ ان یہودیوں کو جو توریت کا علم نہیں رکھتے، بتا رہا ہے کہ فلسطینی بچوں کا قتل صرف جائز ہی نہیں، واجب بھی ہے کیونکہ ان بچوں نے بڑے ہو کر ”فلسطینی“ بن جانا ہے چنانچہ انہیں مارنا ضروری ہے تاکہ آنے والا کل محفوظ بنایا جائے۔ 
تحریف شد ہ توریت میں ایک آیت ہے کہ پیغمبر نے کہا، دشمن کے بچوں کو بھی مار ڈالو۔ کوئی پیغمبر ایسا نہیں کہہ سکتا۔ معاذ اللہ، یہودیوں نے توریت میں تحریف کی اور اضافے کئے اور آیات کے الفاظ بدلے۔ اس پر بھی رانجھا راضی نہ ہوا تو توریت کی تشریحات من مرضی کی کرنے کیلئے تالمود لکھ ڈالی۔ 
توریت نہیں، تالمود پر عمل ہو رہا ہے، امریکہ پر چھائی اور غالب آئی ایونجیکل کمیونٹی فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے نیتن یاہو سے بھی زیادہ پرجوش ہے۔ یہ بنیاد پرست اپنی من گھڑت مذہبی تشریحات کے تحت حضرت مسیح کی آمد کے بے چینی سے منتظر ہیں اور ان کا من گھڑت عقیدہ یہ ہے کہ جب تک مسجد اقصیٰ قائم ہے اور ہیکل پھر سے تعمیر نہیں ہو جاتا، کرائسٹ واپس نہیں آئیں گے اور فلسطینیوں کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں (باقی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو وہ بھربھری مٹی کے بوروں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے) چنانچہ فلسطینیوں کا سو فیصد خاتمہ ضروری ہے۔ وہ اسرائیل سے ڈومور کا تقاضا کرتے ہیں اور غزہ کے بعد مغربی کنارے میں بھی ایسی ہی نسل کشی کا انتظار کر رہے ہیں۔ 
______
جو ”معتبر“ سروے ادارے آج سے آٹھ دس ماہ پہلے بتایا کرتے تھے کہ خان صاحب کی مقبولیت 85 فیصد ہے اور جنہوں نے تین ماہ پہلے یہ بتایا تھا کہ خان کی مقبولیت 66 فیصد ہے اور ایک ماہ پہلے جنہوں نے بتایا تھا کہ خان کو 62 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے، اب اچانک انہوں نے بتایا ہے کہ خان کی مقبولیت محض 22 فیصد رہ گئی ہے اور نواز شریف کی مقبولیت 10 فیصد سے بڑھ کر 50 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ زیاد ہ سے مراد یہ کہ 51 فیصد سے بس ذرا سی کم۔ اللہ اکبر، سروے اداروں نے تو شب بھر میں انڈے پر ہاتھی کھڑا کر دیا۔ اسے انقلاب کہہ لیں یا تبدیلی آ گئی ہے کا عنوان دے ڈالیں۔ 
سروے کے اس ادارے نے بتایا ہے کہ 80 فیصد عوام نے نواز شریف کی مینار پاکستان والی تقریر کو بہت پسند کیا ہے، اسے سراہا ہے اور اس کی تائید کی ہے۔ اس لحاظ سے تو مقبولیت کا ہندسہ 80 فیصد ہی ہونا چاہیے لیکن ایک دوسری شق میں اس نے کہا ہے کہ 50 فیصد عوام کو یقین ہے کہ نواز شریف ملکی مستقبل کو بہتر کر سکتے ہیں (چنانچہ، دوسرے الفاظ میں اتنے لوگ ان کے سخت گیر حامی ہوئے) اور خان کے بارے میں ایسا گمان کرنے والے محض 22 فیصد ہیں۔ اور 51 فیصد کو تو یقین ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے والے ہیں۔ باقی 49 فیصد میں کچھ ایسا نہیں سمجھتے اور باقی کچھ ایسے ہیں جو کوئی رائے نہیں رکھتے۔ 
پی ٹی آئی اس ادارے کی بہت تعریف کیا کرتی تھی، اسے معتبر بلکہ صادق امین مانا کرتی تھی، اب اسی ادارے کی شامت پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ہاتھوں آنے والی ہے۔ 
______
مینار پاکستان پر نواز شریف کا جلسہ بہت بڑا تھا، اندازوں سے بڑا۔ پی ٹی آئی کے حامی اور نواز شریف کے سخت ناقد ایک میڈیا پرسن نے، جس کا پروگرام ملک کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگراموں میں شامل ہے، کہا کہ مینار پاکستان پر خان صاحب کے جتنے بھی جلسے ہوئے، نواز کا جلسہ ان سب سے بڑا تھا۔ دیگر کئی کی رائے ہے، بالخصوص ان کی جنہوں نے خود مینار پاکستان جا کر جلسہ دیکھا، وثوق سے یہ کہا کہ 2012 ءوالے خان کے جلسے سے یہ دوگنا یا اس سے بھی بڑا جلسہ تھا۔ 
پی ٹی آئی کے ”مبصّر“ اطلاع دے رہے ہیں کہ جلسے میں کل 40 ہزار افراد شریک تھے۔ گویا 2012ءمیں خان کے جلسے میں، ا س حساب سے، کل 20 ہزار یا اس سے بھی کم لوگ آئے تھے۔ جی؟۔ پھر فرمایا کہ لاہور سے صرف 3 ہزار لوگ اس جلسے میں آئے۔ لیجئے جناب، سن لیجئے جناب، ایسا ڈرون بھی آ گیا جو جلسے کو دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ فلاں لاہور کا ہے، فلاں ملتان اور بورے وہاڑی کا اور ہمیں پتہ ہی نہ چلا۔

ای پیپر-دی نیشن