مایوسی کا خاتمہ ضروری ہے
پاکستان میں سیاستدانوں کی ناکامی کے باعث معیشت دیوالیہ پن کا شکار ہے اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ اتنے پیارے ملک کو اجاڑنے والوں کا حساب اب بھی ہوتا نظر نہیں آرہا جس سے پڑھے لکھے ‘ قابل و باصلاحیت نوجوان مایوسی کا شکار ہیں اور انہیں اب اس ملک میں اپنا کوئی مستقبل نظرنہیں آرہا جس کی وجہ سے وہ یورپ اور عرب ممالک میں جاکر اپنا بہتر مستقبل تلاش کرتے نظرآتے ہیں۔ یورپ جاتے ہوئے کئی نوجوان غیر قانونی طریقہ کار کے باعث راستے میں ہی ہلاک ہوجاتے ہیں۔اس صورتحال سے محب وطن پاکستانیوں کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ گھمبیر صورتحال پیدا کرنے والے سیاستدان‘ بیورو کریٹ اور رہنما چین کی بانسری بجاتے نظر آتے ہیں۔ اپنے عہدوں کا غلط استعمال کرکے امیر ہونے والی بیورو کریسی اور سیاستدانوں سے لوٹ مار کی ایک ایک پائی وصول کی جائے تو نوجوانوں میں امید کی کرن پیدا ہوگی اور ملک بہتری کی طرف جائے گا۔
یہاں اعلٰی تعلیم اور بہتر علاج صرف امیروں تک محدود ہے اور اگر کوئی اپنے بچوں کو حالات سے لڑ کر پڑھا لکھا بھی لے تو بہتر مستقبل کے لئے میرٹ کا فقدان ہے۔ اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے اداروں میں سلیکشن کا معیار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اچھی معیاری تعلیم کے لئے میرٹ پر داخلوں کے امتحانات کا حال بھی سب کے سامنے ہے کہ اس سال MDCatامتحان بدانتظامی کے باعث دوبارہ لیا جائے گا کیونکہ پہلے پیپر لیک ہوا اور مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچائے جانے کے شواہد سامنے آئے۔ یہی حالت تمام تر نظام کی ہے کہ چاہے اعلیٰ تعلیم کے لئے میرٹ پر داخلے ہوں یا اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لئے سلیکشن کا نظام‘ ہر جگہ مخصوص طبقے کا قبضہ ہے۔ حقیقی طور پر اہل ‘ باصلاحیت نوجوانوں کے لئے اچھے مستقبل کا خواب دیکھنا جرم بن چکا ہے۔ مہنگائی کے باعث ملک میں بے روزگاری میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ وقتی حکومتی پالیسیاں اور ہر روز نئے نئے اعلانات سے کئی لوگ بے روزگاری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی وجہ سے نوجوان اپنے بہتر مستقبل کا خواب ملک سے فرار کو ہی سمجھ بیٹھے ہیں۔نگران حکومت نے گزشتہ دو ماہ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ہر شعبے میں اقربا پروری کے خاتمے کی پالیسی سے ملک میں بہتری آئی ہے۔ ڈالرکی قدر میں کمی سے مہنگائی کی لہر کا خاتمہ ہوا ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں واضح کمی کا رجحان چل نکلا ہے جس سے عوام کوبہتری کی امید نظر آئی ہے۔ اگر نگران حکومت اس قدر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے تو پھر ایسے جمہوری نظام کی دوبارہ ملک کو کیا ضرورت ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر بدترین مہنگائی‘ بدامنی‘ کرپشن کی خبریں آرہی ہوں اور نوجوان سخت مایوسی کا شکار ہوکر بہتر مستقبل کے لئے اپنی زندگیاں داﺅ پر لگاتے نظر آئیں۔
گزشتہ روزنگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے دورہ چین میں پیٹرولیم مصنوعات کے متعلق یونائیٹڈ انرجی اور پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کا معاہدہ ہوا جس کے تحت پاکستان میں پیٹرولیم انڈسٹری میں ڈیڑھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد ڈھائی لاکھ ٹن سے بڑھ کر سولہ لاکھ ٹن ہوجائے گی۔ باہر سے سے آنیوالا کروڈ آئل پاکستان کی مقامی ریفائنریز میں ریفائن ہوکر آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے ذریعے ملک بھر میں فروخت کیا جائے گا۔ جس سے ملک بھر میں معیاری‘ سستی اور وافر پیٹرولیم مصنوعات کی بلاتعطل فراہمی یقینی ہوجائے گی۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں بھی ایران سے کروڈ آئل کراچی منگواکر مقامی ریفائنریز سے ریفائن ہوکر ملک بھر میں آئل مارکیٹنگ کمپنیز کے ذریعے فروخت ہوتا رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس پورے دور حکومت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح استحکام بھی رہا اور ملک بھر میں معیاری اور وافر پیٹرولیم مصنوعات کی بلاتعطل فراہمی جاری رہی۔ اس سارے نظام میں ایک طرف حکومت کو بھاری ٹیکس وصول ہوتا ہے تو دوسری طرف بے روزگاری میں بھی کمی ہوتی ہے۔نگراں حکومت جس طرح دلیرانہ اقدامات کرکے ملک کو بہتری کی جانب لے جارہی ہے تو ایسے میں ضروری ہے کہ نگراں حکومت ہی ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل کے لئے تیز تر پیشرفت کا آغاز کرے۔ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ اپنے پڑوسی ممالک سے زیادہ سے زیادہ تجارت کرے۔ ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل نہ کرکے پاکستان میں گیس کی قلت کی وجہ بھی سیاستدان ہی ہیں جو صرف زبانی جمع خرچ اور دلیرانہ بیانات کی حد تک لیڈر بنے رہتے ہیں لیکن جہاں عملی طور پرعالمی دباو¿ کا سامنا کرنا ہوتا ہے وہاں وہ ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ایران گیس پائپ لائن کی فوری تکمیل بھی ملک کے بہترین مفاد میں ہے جس سے مہنگائی میں کمی میں مدد ملے گی اور گیس کی قلت کا یقینی طور پر خاتمہ ہوسکے گا۔بڑے قومی ادارے پی ایس او‘ پی آئی اے‘ ریلوے اور اسٹیل ملز کو بھی سیاستدانوں نے ہی سیاسی بنیادوں پر نااہل افراد کی وافر بھرتی کرکے تباہ کیا ہے ورنہ یہی قومی ادارے تھے جو جنرل مشرف کے دور حکومت میں اربوں روپے منافع کمارہے تھے لیکن نام نہاد جمہوری ادوار میں یہ بڑے قومی ادارے ملکی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ نگران حکومت خسارے میں چلنے والے قومی اداروں کے 52%شیئرز نجی شعبے کے حوالے کرے تاکہ قومی خزانے پر بوجھ کم ہوسکے یا پھر ان بڑے قومی اداروں کو نجی شعبے کو کرائے پر دے دیا جائے۔ قومی خزانے پر بوجھ میں کمی سے ہی عام آدمی کو ریلیف دیا جاسکے گا۔