جمعرات 10 ربیع الثانی 1445ھ، 26 اکتوبر 2023ئ
نواز شریف ملک کو بچاﺅ، کسی کی مدد سے نہ آﺅ۔ خورشید شاہ
عمر کے اس حصے میں جب لرزا طاری ہو جسم کانپ رہا ہو، ایک بزرگ سیاستدان کو ملک کی فکر زیادہ ہونے لگتی ہے۔ جب علم بھی ہو کہ اب خدا جانے آئندہ انہیں ملک و قوم کی خدمت کا موقع ملے گا یا نہیں۔ ویسے بھی خود ان کے اپنے صوبے اور علاقے کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ان شاہوں نے وہاں کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہیں۔ آج بھی سکھر ہو یا نوابشاہ، لاڑکانہ ہو یا دادو، کراچی ہو یا حیدر آباد ان کی حالت زار خورشید شاہ اور ان کی جماعت کے دور حکمرانی کی تعمیر و ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اُڑتی ہوئی دھول ، کھنڈرات بنی سڑکیں ، پانی ، گیس اور بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگ خدا جانے نالاں ہیں یا خوش ہیں۔ دراصل شاہ جی کو اندازہ تھا کہ اب میدان سیاست میں نہ خان ہے نہ میاں جی، اس لیے اب باری ان کے لاڈلے پارٹی کے شہزادے بلاول کی ہے۔ اسی لیے انہیں سندھ میں مسیحا اور پاکستان میں نوجوان قائد کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا مگر برا ہو موجودہ حالات اور واقعات کا کہ اچانک ایک بار پھر میاں نواز کی آمد کی وجہ سے سارا معاملہ چوپٹ ہو گیا اور بازی پلٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ اب لوگ شہزادے کی جگہ براہِ راست بادشاہ سلامت کی سلامتی و آمد کپر خوشیاں منا رہے ہیں تو شاہ جی نے بڑا زبردست وار کیا اور کہا کہ میاں جی کسی کی مدد سے نہ آﺅ یعنی اداروں کی معاونت کی بجائے خود اپنے زور بازو اور عوام کے ووٹوں سے آئیں۔ حیرت کی بات ہے جب یہی ادارے کپتان کی یا شہزادے کی معاونت کریں تو مبارک سلامت کا شور اٹھتا ہے، کسی اور کی کریں تو قابلِ مذمت ہو جاتے ہیں یہ عجب دوغلی پالیسی ہے۔ رہی بات ملک بچانے کی تو واقعی یہ وقت سیاست بغاوت اور فساد کا نہیں مل جل کر سب کو سیاسی ہوں یا غیر سیاسی ادارے ہوں یا پارٹیاں انہیں مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ اندرونی و بیرونی خلفشار سے ملک کو بچانا ہو گا۔ اداروں کو خاص طور پر پر دفاعی اداروں، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو نشانہ بنانا پہلے بھی نقصان دہ تھا اب بھی ہے اس بارے محتاط رہنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
مالدیپ کے صدر کا بھارت فوج کو ملک سے نکل جانے کا حکم
مدد کے نام پر دوسرے ممالک میں گھس آنا اور پھر وہاں ڈیرہ جما کر بیٹھے جانا بھارت کی پرانی عادت ہے۔ یہی دیکھ لیں پہلے سری لنکا میں اس نے یہی عمل تامل، سنہالی گروپوں کے دوران خانہ جنگی میں کیا اور سری لنکا میں گھس کر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے لگا۔ جب راجیو گاندھی کو اپنی جان کی قیمت چکانا پڑی تو بڑی عجلت میں شرمندہ ہو کر بھارت کو وہاں سے نکلنا پڑا۔ اس دوران پاکستان نے سری لنکا میں امن و امان کی بحالی میں جو بھرپور کردار ادا کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے یوں سری لنکا بھارتی چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ اب مالدیپ میں اندرونی انتشار کی وجہ سے وہاں بھارت نواز حکومت نے بھارتی فوج کو 2021ءمیں معاہدہ کے تحت مالدیپ میں تعینات کیا تھا۔ اب وہاں حالات بہت پرامن ہیں۔ سیاسی استحکام بھی ہے تو وہاں کی نومنتخب حکومت کوشش کر رہی ہے کہ بھارت کی فوج واپس جائے مگر بھارت والے اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے پر مصر ہیں۔ اب بالاخر تنگ آمد بجنگ آمد مالدیپ کے نئے منتخب ہونے والے صدر نے اپنی ملکی سالمیت اور خودمختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی فوج کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے جس پر بھارت کو مرچیں تو لگی ہوں گی کیونکہ یہ بیان پوری دنیا میں نشر ہوا۔ بھارت تو چاہتا تھا کہ وہ سکم کی طرح مالدیپ جیسے چھوٹے ملک کو باسانی ہڑپ کر جائے ، مگر مالدیپ کے نئے صدر نے ہاتھی کے سونڈ میں گھس کر اسے یوں کاٹا ہے کہ ہاتھی پاگل ہو گیا ہے اب اسے دم دبا کر نکلنا ہی ہو گا۔ مالدیپ کو اس وقت چین اور پاکستان کی طرف سے بھرپور معاونت حاصل ہے، جس کی وجہ سے وہاں حالات بہتر ہو چکے ہیں وہاں اب کسی غیر ملکی فورس کو مزید رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ بھارت کیا کرتا ہے وہ ہٹ دھرمی سے مالدیپ میں کسی نئے بحران کو جنم دیتا ہے یا علاقے میں امن و سکون کی خاطر نکل جاتا ہے۔ زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ بھارت مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے کوئی بھی جارحانہ غلط اقدام کر سکتا ہے۔ مالدیپ اس کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا۔ پاکستان تنہا اس پوزیشن میں نہیں ہاں اگر چین اس بارے میں کوئی سخت قدم اٹھاتا ہے تو شاید مالدیپ جو ایک مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے کی شناخت برقرار رہ سکتی ہے۔ اسلامی امہ غزہ کا دفاع نہ کر سکی وہ مالدیپ کی کیا خاک مدد کرینگے۔
٭٭٭٭٭
حماس والوں نے میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ یرغمالی بزرگ خاتون کا رہائی کے بعد بیان
ایک طرف اسرائیل غزہ میں وحشت و بربریت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے اور عالمی برادری اس پر خاموش ہے اور بڑے بڑے انصاف پسند ا ور انسانی حقوق کے مامے اور چاچے کہلانے والے مغربی ممالک اس وحشیانہ مظالم اور قتل عام پر اسرائیل کی بھرپور حمایت کر کے اپنی مسلم دشمنی کا اصل بھیانک چہرہ دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ غزہ اس وقت انسانوں کی سب سے بڑی قتل گاہ بن چکا ہے۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام پر شور مچانے والے اس کے خلاف لب کشائی پر پابندی لگانے والے اس یہودی حکومت کے ہاتھوں بے گناہ فلسطینی بچوں، عورتوں ، بوڑھوں اور جوانوں کے قتل عام پر خاموش کیوں ہیں۔ کیا انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آ رہا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہو رہا ہے اور وہ اسرائیل کی بھرپور مالی امداد ہی نہیں کر رہے بلکہ اسے ہر قسم کا خطرناک اسلحہ بھی دے رہے ہیں تاکہ وہ نہتے محصور و مجبور فلسطینی شہری آبادی کو تباہی و بربادی کا نمونہ بنا دے۔ ان کی اس وحشت ناک سفاکی کے برعکس دوسری طرف حماس کے مسلح گروپ کی انسان دوستی کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے اسرائیلی مغوی خواتین کے ساتھ جس حسن سلوک کا مظاہرہ کیا وہ پوری دنیا نے براہ راست نیوز چینلز پر دیکھا جب ایک بزرگ اسرائیلی خاتون کو رہا کر کے عالمی ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا تو اس نے حماس کے رکن سے ہاتھ ملا کر اسے الوداع کہا۔ جب میڈیا نے اسکے اس طرزعمل کے بارے میں دریافت کیا تو وہ خاتون بولی ”حماس والوں نے ہمارا خیال رکھا، ادویات خوراک، شیمپو اور کنڈیشنر تک ہمیں فراہم کیا جاتا ہے ان کا رویہ ہمارے ساتھ نہایت مشفقانہ تھا“ اب وہ لوگ جو حماس کے خلاف بچوں کے قتل کی جھوٹی فلمیں چلاتے تھے کہانیاں گھڑتے تھے انہیں شرم سے ڈوب کر مرنا چاہیے۔ امریکی صدر نے تو پہلے اپنا پہلا بچوں کے قتل والا جھوٹا بیان واپس لیا تھا اب ان دو یرغمالیوں کی رہائی کی اطلاع ملنے پر وہ اپنی پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے جس میں نجانے کیا شوشہ چھوڑنے والے تھے۔ شاید شرمندگی اور خفت مٹانے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہیں اور اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک کو حماس کے اس طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے کم از کم اپنے ضمیر کے مطاق فیصلہ کرنا چاہیے اگر وہ زندہ ہے ورنہ بے شرموں کے لیے کوئی دلیل کارگر نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭