ریاستی اداروں کیخلاف پراپیگنڈہ کرنیوالے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے دانشوروں‘ سول سوسائٹی اور نوجوانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے بدخواہ عناصر کی جانب سے ریاستی اداروں کیخلاف کئے جانیوالے پراپیگنڈہ کا مقابلہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے عوام بالخصوص نوجوان نسل اس مذموم پراپیگنڈہ کے مقاصد و محرکات سے مکمل آگاہ ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے اس سلسلہ میں جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز جی ایچ کیو راولپنڈی میں 25 ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر ایک پاکستانی کی حفاظت اور سلامتی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس پر کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے ادارے دشمن قوتوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود دہشت گردی کی لعنت کا بہادری سے مقابلہ کررہے ہیں اور پاکستانی عوام کے تعاون سے کامیابی ہمارا مقدر ہوگی۔ انہوں نے اس امر کو واضح کیا کہ فوج پاکستان کے عوام کی بہتری کیلئے ریاست کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر مختلف شعبوں میں قومی اور صوبائی سطح پر پوری طرح مصروفِ عمل ہے۔ ہم ایک مضبوط قوم ہیں جس نے امن و استحکام کے حصول کیلئے بہت سی آزمائشوں کا مقابلہ کیا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی سالانہ نیشنل سکیورٹی ورکشاپ میں تمام مکاتب فکر کے نمائندے شریک ہوتے ہیں۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ 25ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ میں پارلیمنٹیرینز‘ سول اور مسلح افواج کے سینئر افسران اور سول سوسائٹی کے نمائندگان سمیت 98 شرکاءشرکت کررہے ہیں۔ کانفرنس میں شرکاءکو ملک میں غیرقانونی سرگرمیاں روکنے کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا جن میں سمگلنگ‘ بجلی چوری‘ منشیات کا پھیلاﺅ روکنے اور بارڈر کنٹرول کے اقدامات شامل ہیں۔ اسی طرح کانفرنس کے شرکاءکو پاکستان سے غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کی انکے ممالک واپسی اور ملک بدری سے متعلق اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ان تمام معاملات پر آرمی چیف نے مفصل اظہار خیال کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئینِ پاکستان کی بنیاد پر ملک کے ہر شہری اور املاک کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے اور ریاست کے ایماءپر یہ ذمہ داریاں ملک کے سکیورٹی اداروں نے ادا کرنا ہوتی ہیں۔ اسی طرح شہریوں کو بلاامتیاز تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داریاں بھی حکومتی‘ ریاستی اداروں کے ذریعے ہی سرانجام پاتی ہیں۔ آئینِ پاکستان نے شہریوں کی جان‘ مال کے تحفظ اور انکی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ریاست پر ذمہ داری عائد کی ہے تو آئین شہریوں سے ریاست کے ساتھ حب الوطنی کے جذبہ کے تحت وفاداری نبھانے کا بھی متقاضی ہوتا ہے۔ آئین میں ہر ریاستی‘ حکومتی ادارے کی ذمہ داریاں‘ اختیارات اور حدود وقیود بھی متعین ہیں جو باہمی تال میل سے وفاق پاکستان کا اجلا اور مثبت تصور اجاگر کرتے ہیں۔
ہمیں چونکہ قیام پاکستان کے وقت سے اپنے شروع دن کے دشمن بھارت کے ہاتھوں ملک کی سلامتی کے خطرات درپیش ہیں جو اپنی گھناﺅنی سازشوں کے تحت اس ارض وطن کو دولخت بھی کر چکا ہے اس لئے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر کسی قسم کے انتشار و خلفشار پر قابو پانے کی ذمہ داری بھی آئین پاکستان کے تحت عساکر پاکستان پر ہی عائد ہوتی ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کے بلانے پر یہ ذمہ داریاں بھی ادا کرتی ہیں۔ اس صورتحال میں افواج پاکستان کی ایک ریاستی ادارے کے ناطے ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں اور انکی اہمیت بھی تسلیم شدہ ہے جبکہ افواج پاکستان دفاع وطن اور اندرونی استحکام کیلئے اپنی ہر ذمہ داری قومی جذبے کے ساتھ اور اپنی جانوں تک کے نذرانے پیش کرتے ہوئے ادا کرتی ہیں اس تناظر میں انکی حب الوطنی کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے جس پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔
جب ملک میں کسی بھی حوالے سے انتشار اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کی فضا قائم ہو جائے تو اسکے سسٹم کے استحکام اور ملک کی سلامتی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی عسکری قیادتیں اپنی آئینی ذمہ داری کی بنیاد پر ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے بھی سول اتھارٹی کی معاونت کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے قومی سیاست میں پروان چڑھنے والے بلیم گیم کے کلچر نے منافرت کی فضا اتنی گرما دی کہ افواج پاکستان سمیت ملک کے ریاستی ادارے بھی اس طوفان بدتمیزی کی لپیٹ میں آنا شروع ہو گئے۔ اس سلسلہ میں بعض سیاسی مقاصد کے تحت پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پارٹی لیڈر کا کسی مقدس ہستی والا تصور تشخص اجاگر کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر اسکے کارکنوں کو سرکاری وسائل کے ساتھ متحرک کیا گیا جنہوں نے پارٹی قیادت کی جانب سے ملنے والی گائیڈ لائن کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین کے سیاسی مخالفین کے علاوہ ریاستی اداروں کیخلاف بھی زہر افشانی اور گند اچھالنے کا شدومد کے ساتھ سلسلہ شروع کر دیا جس سے لامحالہ ملک کے دفاع و سلامتی کے ذمہ دار ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں پر ملک کے بد خواہوں کی جانب سے منفی انداز میں انگلی اٹھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا اور بیرونی دنیا میں بالخصوص ملک کی دشمن قوتوں کے نزدیک پاکستان کا تشخص بھی خراب ہوا۔ کسی ریاستی ادارے اور اسکی قیادت کے بارے میں ایسا مجہول و مذموم پراپیگنڈا مروجہ قوانین کے تحت سائبر کرائم کے زمرے میں بھی آتا ہے اور ملک دشمنی کے بھی مترادف ہے۔ اسی پراپیگنڈے کے تسلسل میں 10, 9 مئی 2023ءکو افواج پاکستان کی املاک‘ مجسموں‘ شہداءکی یادگاروں اور دوسرے اہم مقامات پر پ±رتشدد حملے کرکے ان املاک کو نقصان پہنچایا اور خاکستر کیا گیا جس سے ملک کا تشخص ہی خراب نہیں ہوا بلکہ متعلقہ ریاستی ادارے کی کمزوری کا تاثر بھی اجاگر ہوا چنانچہ ریاستی انتظامی اتھارٹی حرکت میں آئی اور ان واقعات میں ملوث لوگوں اور انکے سرپرستوں و سہولت کاروں کیخلاف مروجہ فوجی اور سول قوانین کے تحت مقدمات درج کرکے کارروائی کا آغاز کردیا گیا۔ اس کا مقصد یقینی طور پر ملک کے اندر اور باہر موجود ملک کے دشمنوں کو یہ ٹھوس پیغام دینا تھا کہ ملک کی سلامتی اور شہریوں کی جانوں و املاک کے تحفظ کے معاملہ میں کوئی مفاہمت ہو سکتی ہے نہ کسی کے ساتھ کوئی نرم رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
ان واقعات میں ملوث جن لوگوں کیخلاف متعلقہ قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمات چل رہے تھے‘ وہ اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت کالعدم قرار پا چکے ہیں اور یہ مقدمات اب سول عدالتوں میں زیرسماعت آئیں گے چنانچہ اب ملک کے سول عدالتی نظام اور سول اتھارٹیز پر ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ ان مقدمات کو بلاتاخیر منطقی انجام کو پہنچائیں اور جن پر الزامات ثابت ہوں انہیں اس طرح کیفر کردار کو پہنچایا جائے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے بدبختوں کیلئے عبرت کی مثال بن جائیں۔ یقیناً اس سے ملک کی عدلیہ پر بھی عوام کا اعتماد پختہ ہوگا۔ اسی طرح ملک اور اسکے ریاستی اداروں کیخلاف سوشل، پرنٹ اود الیکٹرانک میڈیا پر بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے والے عناصر کی بھی آہنی ہاتھوں کے ساتھ سرکوبی ضروری ہے۔ نیشنل سکیورٹی ورکشاپ میں آرمی چیف کے خطاب کا مطمح نظر یہی تھا کہ ملک کی سلامتی اور اسکے ذمہ دار ریاستی اداروں پر کوئی آنچ نہ آنے دی جائے۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے ایسے بے بنیاد پراپیگنڈا کا توڑ کرنے کی یقینناً ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔