قناعت و توکل
اگر مالی معاملات میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو نظر انداز کر دیا جائے تو انسان کی تر جیحات بدل جاتی ہیں جس کی وجہ سے انسان سکون قلب سے محروم ہو جاتا ہے۔جب انسان قناعت سے محروم ہو جاتا ہے تو اس کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رزق کی طلب اور جد و جہد محمود ہے لیکن جب یہ طلب اعتدال کی حد عبور کر لے تو یہ طلب ہوس بن جاتی ہے۔ اور ایسا انسان اپنے لیے اتنے مسائل پیدا کر لیتا ہے کہ قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز اسکے پیٹ کوبھر نہیں سکتی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر انسان کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ چاہے گا کہ اس کے لیے ایک اور وادی ہو اور اس کے منہ کو قبر کی مٹی کے سوا کچھ نہیں بھرتا اور اللہ تعالی رحمت کے ساتھ اسکی طرف توجہ فرماتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ( ترمذی )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیوی بے رغبتی سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ انسان کے پاس ہے اسے اس پر زیادہ یقین ہونا چاہیے جو اللہ تعالی کے پاس ہے اور اسے جو مشکلات پیش آتی ہیں ان کے اجر پر نظر رکھے اور یقین جانے جو اجر اس کو مشکلات کی وجہ سے ملا ہے اس کا مقابلہ نعمتیں نہیں کر سکتی تھیں۔ جب انسان اپنی کوشش سے بڑھ کر اللہ تعالی پر یقین نہ رکھے اس وقت تک کبھی ہوس سے نجات نہیں پا سکتا اور جب اس کو اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ جس کا میں بندہ ہوں اسی کے دست قدرت میں سارے خزانے ہیں تو اسے سکون قلب کی دولت مل جائے گی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر تم اللہ تعالی کی ذات پر اس طرح توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو دیا جاتا ہے۔ وہ صبح اس حال میں کرتے ہیں کہ بھوکے ہوتے ہیں اور شام اس حال میں کرتے ہیں کہ سیر ہو چکے ہو تے ہیں۔ ( مسند احمد )
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ وہ بندہ کامیاب ہو گا جو مسلمان ہو اور اسے ضرورت کے مطابق روزی دی گئی اور اسے اللہ تعالی نے قناعت کی دولت سے نوازا۔ (شعب الایمان اللبہیقی )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس بندے نے پر امن حالت میں اپنے گھر میں صبح کی ، اس کا بدن سلامت تھا اور اس کے پاس ضرورت کے لیے روزی تھی تو ایسے ہی ہے کہ اسے پوری دنیا کی دولت مل گئی ہو۔ (ترمذی)