معدنی دولت کے خزانے اور مقروض پاکستان
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار وسائل سے نوازا ہے، اس کے پہاڑوں ، صحراو¿ں ، میدانوں، دریاو¿ں ، سمندروں اور حتیٰ کہ فضاو¿ں میں بھی قدرت کے عطا کردہ بیش بہا خزانے موجود ہیں لیکن ہم اپنی ناقص پالیسیوں ، حکمت عملی، کوتاہیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان ظاہری اور پوشیدہ خزانوں سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے ملکی وسائل پر بھروسا کرنے کی بجائے ہمیشہ ملک کے نظام کو چلانے کے لیے غیر ملکی قرضوں کا ہی سہارا لیا ۔ ہمارے اسی طرزِ عمل کی وجہ سے آج پاکستان ، قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہاں ہر نو زائیدہ بچہ مقروض ہی پیدا ہوتا ہے۔ عالمی اقتصادی ماہرین کی یہ رائے ہے کہ پاکستان میں سونا، چاندی تانبہ ، لوہا ، گیس، کوئلہ، تیل اور دیگر قیمتی معدنیات کے بیش بہا خزانوں کے باوجود یہ ملک پسماندہ اور مقروض کیسے رہ سکتا ہے ؟ اس پر مزید یہ کہ چاروں موسم موزوں آب و ہوا زرخیز زمین، آبپاشی کا وسیع نیٹ ورک اور محنتی کسان جیسی نعمتیں ہوں اس قوم کا کشکول گدائی اٹھانا حیران کن اور شرمناک ہے۔
افسوس ناک بات یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ہمیشہ اپنے اقتدار کو دوام دینے اور اپنے مخالفین کو کھڈے لائن لگانے کی پالیسی پر عمل کیا۔ جس کی وجہ ملک میں نہ ہی سیاسی استحکام آیا اور نہ ہی جمہوریت مضبوط ہوئی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ان نا عاقبت اندیش سیاستدانوں کے کرسی گرانے اور کرسی بچانے ©کے گھناو¿ نے کھیل کی وجہ سے جمہوریت کی دیوی بھی خوف زدہ ہو کر کہیں ©©روپوش ہوگئی ہے اور یہ سیاستدان اب صرف ہر وقت جمہوریت جمہوریت کی گردان کر کے اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں۔ یہ ہمارے سیاست دان ہی تھے جنھوں نے بلوچستان کے قدرتی و سائل سے استفادہ کرنے کی بجائے اس صوبے کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ریکوڈک، سینڈک اور گوادر جسے بڑی طاقتیں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہیں اور بلوچستان کے عوام حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کہ کب ان معدنی اور قدرتی خزانوں سے بلوچستان کے عوام کے لیے خوشحالی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔
کب اس پسماندہ صوبہ اور اس کے عوام کو اس معدنتی دولت اور گوادر منصوبے سے حقیقی معنوں میں ان کا حق ملتا ہے ؟ پاکستان کے پسماندہ رہ جانے کی سب سے بڑی وجہ معدنی اور آبی وسائل پر ہی سیاست چمکانا ہے۔ اگر ہمارے حکمران اور سب سیاستدان اپنے باہمی سیاسی اور ذاتی مفادات کو چھوڑ کر اس وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے عزم کریں ، متحد اور باہم مل کر قدم بڑھائیں اور سب سے پہلے کشکول گدائی کو حقیقتاً ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور یہ متفقہ فیصلہ کریں کہ ہم صرف اور صرف اپنے ملکی وسائل پر بھروسا کریں گے اور معدنیات کے قیمتی خزانوں ، آبی و سائل ، سیاحتی و سائل اورسب سے بڑھ کر انسانی وسائل سے بھر پور استفادہ کر کے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں با عزت کھڑا کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ ہمارے ہر علاقے ہر صوبے میں قیمتی معدنیات کے بہت بڑے بڑے اور وسیع خزانے ہیں لیکن ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ خزانوں سے استفادہ نہیں کر سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم کان کنی کے شعبے کی ترقی کے لیے درکار ٹیکنالوجی ، انفراسٹرکچر ، وسائل اور سرمایے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں جس کی وجہ سے ہماری معدنیات کی مقدار اور پیداوار کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ سرکاری طور پر جاری ہونے والے اقتصادی سروے 2022-23ءکے مطابق، ہماری انتہائی اہم اور قیمتی دھاتوں ، معدنیات مثلاً خام لوہا 51-61فیصد ، میگنسائیٹ 50فیصد، سوپ سٹون )جس سے میک اپ کا سامان اور پاو¿ڈر بنتا ہے ) 43-24 فیصد، سلفر 25فیصد، کرومائیٹ 12.60فیصد، کروڈآئل 10-23فیصد ، قدرتی گیس 9.29فیصد، ماربل 7.95فیصد، جپسم 5.03فیصد، پیداوار میں کمی ہوئی۔ اس کمی کی وجوہات کا حکومت کو بغور جائزہ لینا چاہیے ۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے ہماری چند اہم معدنیات کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہو ا ہے مثلاً سیسے کی کانوں میں پائی جانے والی قلموں کی شکل کی باریٹس (BARYTES)کی پیداوار میں 53-57فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ ڈولو مائیٹ 42.20 فیصد، کوئلہ17.60فیصد ، گیرو (OCHER) 15.40فیصد ، راک سالٹ 12.40فیصد اور لائم سٹون کی پیداوار میں 10.60فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس اقتصادی سروے کے صفحہ نمبر55میں دیے گئے معدنی پیداوار کے اعداد و شمار میںتانبے ، زمرد اور سونے کی پیداوار کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا حالانکہ عوام اس قیمتی دولت کے بارے میں تفصیلات اورحقائق جاننا چاہتی ہے۔ چند سال پہلے صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے کے بہت بڑے ذخائر کا انکشاف اس وقت کے وزیر اعلیٰ میں شہباز شریف نے بڑے فخریہ اندازمیں کیا تھا۔ عوام اس خوش فہمی کا شکار بھی کہ اب پاکستان اس سونے کے ذخائر کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے باہر نکل آئے گا۔ہم بیرونی قرضوں کی مکمل ادائیگی کر کے©© سکھ چین کی بانسری بجائیں گے لیکن سونے کے سہانے خواب چکنا چور ہوگئے اور ہمیں نئے قرضوں کے حصول کے لیے شرمو شرمی اپنا کشکول گدائی پھر سے اٹھانا پڑا۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم ہر معاملے میں جھوٹے دعوے کرنے، فرضی اعداوشمار جاری کرنے اور عوام کو سبز باغ دکھانے کی اپنی عادت کبھی بھی ترک نہیں کریں گے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہمارے حکمران اور تمام سیاست دان اتحاد و اتفاق کے ساتھ اس بات کا عہد کریں کہ قدرت کے عطا کردہ چھپے ہوئے خزانوں کا نکالنا ہے اور اسے ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایمانداری سے استعمال کرتا ہے تو یقین کریں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شاہراہ ترقی پرگامزن ہونے سے نہیں روک سکتی اور یہ بھی سچ ہے کہ پھر اس ترقی کے ثمرات ملک کے ہر علاقے ، ہر صوبے اور عوام تک بآسانی پہنچیں گے۔ اللہ کرے ہماری حکمرانوں سیاست دانوں، ماہرین معدنیات، سائنس دانوں اور اقتصادی ماہرین کو اللہ کہ عطا کردہ ان قیمتی خزانوں کی اہمیت کا احساس ہو وگرنہ کفر انِ نعمت © کی سزا بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
٭....٭....٭